فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ٹرمپ نے ولادی میرپوتین پر زور دیا کہ وہ شام اور اسرائیل کے درمیان 1974ء کے جنگ بندی معاہدے کو برقرار رکھنے میں معاونت پر زور دیا جس پر صدر پوتین نے یقین دلایا کہ ان کا ملک شام کی سرزمین کو اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔
امریکی صدر کے بیانات سے مترشح ہوتا ہے کہ ھلسنکی کانفرنس میں صیہونی ریاست کی سلامتی پر سب سے زیادہ زور دیا گیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے جب اسرائیل کی سلامتی کو درپیش خطرات پر بات کی تو ان کے روسی ہم منصب پوتین نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔
’فاکس نیوز‘ پر نشر ایک بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ روسی صدر سے ملاقات میں ان پر واضح کیا گیا کہ شام کی سرزمین کو اسرائیل کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرانا ہوگی۔ ولادی میر پوتین نے انہیں یقین دلایا کہ ماسکو اسرائیل کی سلامتی کے لیے نہ صرف شام کو استعمال نہیں ہونے دے گا بلکہ کسی دوسرے محاذ کو بھی اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ بنے سے روکنے میں مدد کرے گا۔
امریکی صدر کے بیانات اسرائیلی ریاست کے مستقبل کے حوالے سے صیہونیوں کے مطالبات کے عکاس ہیں۔ ان میں خاص طور پر فلسطینیوں کے ساتھ کسی دائمی معاہدے کی صورت میں وادی اردن میں اسرائیلی فوج کے سوا کسی دوسری فوج کی تعیناتی روکنا وغیرہ جیسے مطالبات شامل تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ھلسنکی سربراہ کانفرنس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ روسی صد ولادی میر پوتین نے بھی غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت پر کوئی بات کہنا مناسب نہیں سمجھی بلکہ صیہونی ریاست کو غزہ پر جارحیت کی کلین چٹ دے دی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے فن لینڈ میں امریکی اور روسی صدر کی ملاقات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ نیتن یاھو نے ھلسنکی کانفرنس کے بعد صدر ٹرمپ کے اس بیان کا خیر مقدم کیا جس میں انہوں پوتین کے نیتن یاھو کے بارے میں مثبت اشارہ دیا تھا۔
عبرانی اخبار ’معاریو‘ کے سیکیورٹی امور کے تجزیہ نگار یوسی ملیمن کا کہنا ہے کہ پوتین کے نیتن یاھو کے بارے میں خیالات اسرائیلی وزیراعظم کی سیاسی کامیابی ہیں۔ نیتن یاھو نے روسی صدر ولادی میر پوتین کے ساتھ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران 10 ملاقاتیں کر رکھی ہیں اور ان ملاقاتوں میں انہیں اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔