غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) ان دنوں مشرق وسطیٰ میں امریکا کے مجوزہ امن منصوبے ’صدی کی ڈیل‘ کے نفاذ کے بارے میں کافی چرچا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور سیاسی و دفاعی امور کے ماہرین اس حوالے سے اپنی آراء بھی پیش کر رہے ہیں۔ مرکز اطلاعات فلسطین نے ماہرین کی آراء کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا صدی کی ڈیل کے نفاذ کی راہ کیسے روکی جائے۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا اس امر پراتفاق ہے کہ ’صدی کی ڈیل‘ کا اصل ٹارگٹ قضیہ فلسطین کا تصفیہ اور فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق ومطالبات کو کسی نئے نام نہاد امن معاہدے کی بھینٹ چڑھا کر فلسطینی قوم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے مسلمہ حقوق سے محروم کر دیا جائے۔ایسے میں فلسطینی تجزیہ نگار فلسطینی دھڑوں میں قومی یکجہتی پر زور دیتے ہیں۔ فلسطینی جماعتوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے فروعی اور جماعتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ قومی حکمت عملی اختیار کریں۔ صدی کی ڈیل کی راہ میں فلسطینیوں کا اتحاد ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عرب اور مسلمان ممالک کی سطح پر بھی صدی کی ڈیل کے خلاف یکساں مؤقف اپنایا جائے تاکہ امریکا اور اس کے حواریوں کو ’صدی کی ڈیل‘ کی سازش کو آگے بڑھانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔
فلسطینی عرب نظاموں پر اعتبار نہ کریں
اردنی دانشور اور صحافی عریب الرنتاوی کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات اور شدید مایوسی کے ماحول میں فلسطینیوں کو عرب ممالک کی حکومتوں کی طرف سے کسی ٹھوس حکمت عملی کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ بہت سے عرب ممالک اپنے مخصوص مفادات کے گرد ہی سوچتے اور منصوبے بناتے ہیں۔ انہیں فلسطینی ’کاز‘ کے ساتھ کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔ اس لیے فلسطینیوں کو ’ناخن بچانے کے لیے جلد کو قربان‘ کرنے کی پالیسی کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے پڑے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ قضیہ فلسطین کے تصفیے کی آندھی تیزی کے ساتھ فلسطین کی طرف بڑھ ہی ہے اور بہت سے گمان اور واہمے پھیل رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو اپنے دائرے سے باہر نکل کر غور کرنے اپنی از سرنو قومی صف بندی کی ضرورت ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لیے آخر کار قوم کے نمائندہ دھڑوں کو اپنی صفوں میں یکجہتی پیدا کرنا ہوگی۔
الرنتاوی کا کہنا ہے کہ امریکی مشیر جارڈ کوشنر اور اس کے امن مفروضے بند دیوار سے ٹکرا رہے ہیں۔ ہم موجودہ حالات میںÂ مشرق وسطیٰ کے دوسرے مسائل سے بھی صرف نظر نہیں کرسکتے۔
اس میں کوئی شک نہیں امریکی صدر کی صدی کی ڈیل کی سازش کو کافی مزاحمت کا سامنا ہے مگر اسے ناکام بنانے کے لیے فلسطینیوں کو ایک مؤقف اختیار کرتے ہوئے صدی کی ڈیل کی سازشیں مسترد کرنا ہوں گی۔ اگرچہ صدی کی ڈیل کے منصوبے کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین ایک نئی پچیدگی کی نظر ہوسکتا ہے۔
اوسلو کی سرنگ سے اخراج
بیرون ملک فلسطین نیشنل کانگریس کے چیئرمین اور عالمی قانون کے ماہر انیس قاسم نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’صدی کی ڈیل‘ کو ناکام بنانے کے لیے فلسطینیوں کو ’اوسلو‘ معاہدے کی سرنگ سے نکلنا ہوگا۔ ابھی تک تو فلسطینی قوم کے تمام دھڑے اوسلو معاہدے کو قبول نہیں کر پائے ہیں۔
یہ بات غیرمنطقی اور نامعقول ہے کہ فلسطینی اتھارٹی’صدی کی ڈیل‘ کو مسترد کرے مگر وہ ساتھ ہی ساتھ صیہونی ریاست کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کا سلسلہ جاری رکھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی بلڈوزر کا مقابلہ اور اسرائیل کی خدمت ایک ساتھÂ نہیں چل سکتے۔ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کو صدی کی ڈیل کے خلاف مزاحمت کے لیے پہلے صیہونی ریاست کے ساتھ طے پائے تمام نام نہاد معاہدے ختم کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ صدی کی ڈیل کی مخالفت کرنے والی فلسطینی اتھارٹی کے موقف میں کھلا تضادÂ پایا جاتا ہے۔ ایک طرف وہ صدی کی ڈیل کے خلاف ہے اور دوسری طرف اس کے نفاذ کے لیے اسرائیل کے ساتھ کھلم کھلا تعاون بھی کررہی ہے۔
اختلافات کا خاتمہ
فلسطین پولیٹیکل ریسرچ اسٹیڈیز سیںٹر کے ڈائریکٹر جنرل ھانی المصری کا کہناہے کہ فلسطینی اتھارٹی صدی کی ڈیل کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسے پہلے تمام فلسطینی قوتوں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔ فلسطینی قوم کے خلاف انتقامی پالیسی ترک کرنا ہوگی اور قومی نوعیت کے فیصلوں کے لیے آمرانہ روش ترک کرکے قومی وحدت کا ثبوت دینا ہوگا۔
المصری کا کہنا تھا کہ تحریک حق واپسی کے لیے اگرچہ احتجاج کا سلسلہ غزہ کی پٹی تک محدود ہے مگر اسرائیل کی طرف سے طاقت کے استعمال کے باوجود فلسطینیوں کو اس مزاحمتی عمل سے روکا نہیں جا سکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی قوم میں کسی بھی سازش کو مسترد کرنے اور اس کے خلاف طویل المیعاد مزاحمت کی صلاحیت موجود ہے۔
سیاسی دھارے کی انسانی دھارے سے علیحدگی
تجزیہ نگار ابراہیم حبیب نے کہا کہ صدی کی ڈیل کی سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے کم سے کم نقصان کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ سیاسی عمل اور انسانی عمل کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔ فلسطینی جماعتیں صدی کی ڈیل کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ کر ایک مؤقف اختیار کریں۔
فلسطینی بعض نکات پر متفق ہوجائیں۔ اوّل یہ کہ صدی کی ڈیل کے نفاذ کی ذمہ دار امریکی انتظامیہ کو قرار دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ مصر اس ڈیل کو آگے بڑھانے کے لیے زمین مہیا نہ کرے۔ سعودی عرب اس کے لیے مالی مدد نہ کرے۔ خطے کا کوئی ملک یا حکومت صدی کی ڈیل کو آگے بڑھانے کی امریکی کوششوں میں کسی قسم کا تعاون کرنے سے انکار کردے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ مزاحمتی قوتوں کو حق واپسی تحریک سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔Â وہ حق واپسی تحریک کو صدی کی ڈیل کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے ایک متبادل آپشن کےطور پر پیش کرتی ہیں۔ اسلامی تحریک مزاحمت اور دیگر فلسطینی مزحمتی قوتوں کا مشترکہ مؤقف یہ بھی ہے کہ اگر پرامن طریقے سے صدی کی ڈیل کو ناکام نہیں بنایا جاتا تو عالمی اور علاقائی غفلت کے ہوتے ہوئے فلسطینیوں کے پاس مسلح جدو جہد کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔
استقامت اور فولادی عزم
بیروت میں قائم زیتونہ مرکز برائے اسٹڈیز کےÂ ڈائریکٹر جنرل محسن صالح کا کہناہے کہ صدی کی ڈیل آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ابھی تک فلسطین میں ایسا کوئی دھارا سامنے نہیں آیا جو اس کی حمایت کا عندیہ دے رہا ہو۔ یہ وہ ڈیل ہے جسے فلسطینی قوم نے بہ ظاہر متفقہ طورپر مسترد کردیا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ جب تک فلسطینی مل کر کسی امن فارمولے کی مخالفت کریں گے امریکا اور صیہونیوں کے لیے اسے عمل شکل دینا ممکن نہیں۔ فلسطینی قوم نے ستر برسوں میں ایسی کئی سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ وہ صدی کی ڈیل کو بھی ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بالفرض کوئی فلسطینی گروہ اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ صدی کی ڈیل کا حامی ہے تو بھی اس کے لیے قضیہ فلسطین کی عرب اور اسلامی اہمیت کی بناء پر اسے آگے بڑھانا ممکن نہیں۔
چار راستے
تجزیہ نگار علاء الریماوی کا کہنا ہے کہ صدی کی ڈیل کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے فلسطینیوں کے پاس چار راستے ہیں۔ سب سے نمایاں اور اہم راستہ فلسطین کا سرکاری مؤقف ہے۔ ابھی تک تو فلسطینی اتھارٹی کا سرکاری مؤقف اس کے خلاف ہی رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو ہرصورت میں صدی کی ڈیل کی سازش کو عملی شکل دینے سے روکنے کے لیے کسی قسم کا تعاون اور گراؤنڈ فراہم کرنے سے روکنا ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی قوم میں بیداری پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ فلسطینی شہروں میں عوامی سطح پر صدی کی ڈیل کے خلاف احتجاج منظم کرنا بھی اہم ضرورت ہے۔
فلسطینی قوم مل دیگر علاقائی اسٹیک ہولڈرزکو بھی اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں۔ اگر فلسطینیوں کا مؤقف اور لائحہ عمل ایک ہوگا تو تو کوئی دوسری قوت فلسطینیوں پر اپنا منصوبہ مسلط نہیں کرسکتی۔