گوکہ ارض فلسطین میں آبی وسائل پرقبضے کے ہتھکنڈے بھی غیرقانونی اور ناجائز ہیں مگر ان کی آڑ میں آبی وسائل اپنی جگہ قیمتی فلسطینی رقبے پر قبضہ جمالیا جاتا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور آبی امور کے ماہر احمد عویس اور ڈاکٹر زائر نے مشرقی القدس میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب میں صیہونی ریاست کے اس مکروہ حربے کا پردہ چاک کیا۔
انہوں نے بتایا کہ صیہونی ریاست نے گذشتہ صدی کی ستر کی دھائی میں یک تزویراتی منصوبے کا آغاز کیا جس کے تحت غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس کے تمام آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور توانائی کے حامل ذخائر پر قبضے کا فیصلہ کیا گیا۔
عویس نے کہا کہ مذکورہ منصوبے کا مقصد آبی وسائل پرقبضہ کرنا اور ہزاروں فلسطینیوں کو پانی کی قدرتی نعمت سے محروم کرنا ہے۔ خاص طور پر کردلہ، بردلہ، عین البیضہ اور دسیوں دیگر فلسطینی قصبوں میں پانی کے وسائل کو ہتھیانے، پانی کے چشموں پر قبضہ کرنے اور زیرزمین پانی کے وسائل کو صیہونی کالونیوں کے لیے استعمال کرنے کی گہری اور منصوبہ بند سازش شروع کی گئی۔
فلسطینی تجزیہ نگار کے مطابق وادی اردن کے شمالی علاقوں بردلہ میں آبی وسائل کی تلاش کی آڑ میں کھدائیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ فلسطینی بستیوں کو پانی فراہم کرنے والی 400 میٹر لمبی پائپ لائن تباہ وبرباد کردی گئی اور وادی اردن میں کئی دیہاتوں کےÂ فلسطینیوں کو پانی سے محروم کردیا گیا۔
فلسطینی ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی اردن میں بیشتر آبی وسائل پر صیہونی ریاست کا قبضہ ہے اور فلسطینی کسان، گلہ بانی کے پیشے سے وابستہ شہری اور ان کے مال مویشی پانی سے محروم ہیں۔ سنہ 2017ء میں صیہونی حکام نے وادی اردن اور مغربی کنارے میں کئی مقامات پر آبی وسائل سے فلسطینی محروم کیے گئے۔
غرب اردن کے جنوب میں پانی کے سات چشمے فلسطینی کسانوں ، ان کے مال مویشی اور فصلوں کے لیے آب رسانی کا ذریع تھے۔ بیت لحم میں تقوع، خشم الدرج۔ خشم الکرم، جنوبی الخلیل میں جبل الخلیل اور وادی اردن میں تین آبی وسائل مسمار کردیے گئے۔
عویس نے کہا کہ سنہ 1967ء میں صیہونی ریاست نے تمام آبی وسائل پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ دریائے اردن سے بحر مردار تک تمام علاقوں حتیٰ کہ غزہ کی پٹی تک کے تمام آبی وسائل پر قبضہ کرلیا گیا۔
ایک طرف صیہونی ریاست فلسطینیوں کے قدرتی وسائل اور آبی وسائل پر غاصبانہ قبضہ کررہا ہے اور دوسری طرف غزہ اور غرب اردن کے عوام کو پانی جیسی بنیادی نعمت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں علاقوں کے فلسطینی باشندے پانی کی نعمت سے خاص طور پرمحروم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی ریاست کو یہ معلوم ہے کی مغربی کنارے میں تمام آبی وسائل اس کے زیرتسلط ہیں مگر اس کے باوجود فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
ایک طرف تو پانی کے وسائل پر صیہونی ریاست کا غاصبانہ قبضہ ہے اور دوسری طرف سیکٹر ’C‘ میں فلسطینی بستیوں اور شہروں میں پانی کے بنیادی ڈھانچے کو بھی صیہونی ریاست تباہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ دیوار فاصل بھی اس کا ایک حربہ ہے۔ صیہونی ریاست غرب اردن میں دیوار فاصل کے ذریعے تیس سے چالیس کلو میٹر کی حدود پر فلسطینیوں کی پانی کی پائپ لائنوں کو تباہ کرچکا ہے۔
ادھر اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے’بتسلیم‘ کے مطابق سنہ 2017ء میں صیہونی ریاست نے سیکٹر AÂ کے علاقے عاطوف ، سیکٹر C کے تین قصبوں خربہ راس الاحمر، خربہ الحدیدیہ اور خربہ حمصہ میں فلسطینیوں کے پانی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کردیا۔