صیہونی اجرتی قاتلوں کے سامنے بچے محفوظ رہے نہ خواتین، بوڑھے نہ جوان، فلسطینیوں کو ان کے گھروں کے اندر بند کرکے ان پر مکان گرا دیے گئے۔Â فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کا ایسا وار جاری ہے جیسے ان کا تاریک میں نام و نشان تک مٹا دیا جائے گا۔ خون خوار صیہونی بھیڑے جسد فلسطین کو مسلسل نوچ رہےہیں۔
خان الاحمر سے بے دخلی اور غزہ پر عرصہ حیات تنگ
مقبوضہ فلسطین کے شمالی شہر اللد میں وحشی صیہونی لیڈر ازحاق رابین کی قیادت میں آج سے ستر برس پیشتر فلسطینیوں کا قتل عام اس لیے کیا گیا کہ انہوں نے صیہونی غاصبوں کے حکم پر شہر خالی کرنے سے انکار کردیا گیا۔ آج ستر سال کے بعد بھی وہی مناظرایک بار دہرائے جا رہے ہیں۔ آج اللد کی جگہ ’خان الاحمر‘ اور ازحاق رابین کی جگہ بنجمن نیتن یاھو ہے۔ آج اللد کی جگہ غزہ ہے جس کے باشندوں کا مال لوٹنے کے ساتھ ساتھ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ صیہونی منظم انداز میں خان الاحمر سے فلسطینیوں کو نکال باہر کرنے اور غزہ کے دو ملین فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی مجرمانہ پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔
جس طرح اللد میں فلسطینیوں کو صیہونی مجرموں کی منظم نسل پرستی کا سامنا تھا۔ ایسے ہی آج خان الاحمر اور غزہ کے عوام کو درپیش ہے۔ ہاں وقت ضرور بدل گیا ہے مگر انداز دہشت گردی وہی پرانا ہے۔ غرب اردن اب بھی صیہونی توسیع پسندی کے اژدھے میں ہے۔
فلسطینی قوم آج بھی اللد میں ہونے والے اپنے بزرگوں کے قتل عام کو یاد رکھے ہوئے ہے۔ صیہونی ریاست کے انسانیت کے خلاف جرائم اب تاریخ اور جغرافیے کے خلاف جرائم تک پھیل گئے ہیں۔
اللد میں قتل عام
اللد اور الرملہÂ قصبے سنہ شمالی فلسطین کے ان علاقوں میں شامل ہیں جہاں سنہ 1948ء میں صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ صیہونی دہشت گردوں کے بریگیڈ 89 کی قیادت موشے ڈایان نامی ایک دہشت گرد کے پاس تھی۔ جب صیہونی بلوائیوں نے ان دونوں قصبوں کی فلسطینی آبادی کو تہہ تیغ کرنا شروع کیا تو ڈایان کی جانب سے اعلان کیا گیا جو لوگ مسجدوں میں پناہ لیں گے انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ سیکڑوں فلسطینی اپنی جانیں بچانے کے لیے اللد کی مسجد دھمش میں جمع ہوئے۔
ڈایان نے صیہونی دہشت گردوں کو آرڈر جاری کیا کہ وہ مسجد میں جمع فلسطینیوں کو چن چن کرگولیاں ماریں چنانچہ دہشت گردی کی اس بدترین واردات میں 176 فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا۔ آج بھی اس مسجد کے کھنڈرات فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام کی گواہی دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں مسجد میں 176 افراد کو شہید کرنے کے بعد گھروں سے بھاگنے والوں کو بھی معاف نہ کیا گیا اور ہرنظرآنے والے فلسطینیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اعدادو شمار کے مطابق 426 فلسطینیوں کو نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا اور ان دونوں قصبوں سے سخت گرمی میں ساٹھ سے ستر ہزار فلسطینیوں کو نکال دیا گیا۔