تحریر: صابر ابو مریمÂ
سیکریٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
صدی کی ڈیل یا پھر انگریزی میں Deal of the Centuryکہہ لیجئے، یہ ایک ایسا معاہدہ یا ڈیل ہے جسے پیش کرنیو الا امریکی صدر ہے کہ جس نے یہ ڈیل گذشتہ برس کے اختتام پر متعار ف کروائی تھی اور اس کے چند حصوں کو آشکار کیا اور چند کو مخفی رکھا۔ دنیائے سیاست کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے روز اول سے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متعارف کی جانے والی صدی کے ڈیل پر نظریں جما رکھی ہیں اور اس کا باریک بینی سے مطالعہ و مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔یہ صدی کی ڈیل کیا ہے ؟ جیسا کہ آج سے ایک سو سال پہلے برطانوی سامراج کے وزیر خارجہ آرتھ بالفور نے سنہ1917ء میں ایک اعلامیہ میں فلسطینیوں کی زمین کو تقسیم کر کے یہاں پر ایک غاصب اور ناجائز ریاست اسرائیل کے وجود کے قیام کاپیش خیمہ فراہم کیا تھا لہذااس عنوان سے آج مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کی جد وجہد آزادی کو ایک سو سال سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں اور فلسطین پر غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے قیام کی بات کریں تو یوں آج ستر سال ہونے کو ہیں کہ سرزمین فلسطین صیہونی غاصبانہ تسلط میں ہے۔اس عنوان سے امریکی صدر نے مسئلہ فلسطین کا ایک ایسا حل اور فارمولا پیش کیا ہے جس کا مقصد پورے کا پورا فلسطین غاصب صیہونی اور جعلی ریاست اسرائیل کی ملکیت میں چلا جائے اور اس ڈیل کو انہوں نے فلسطین و غاصب اسرائیل کے مابین انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
صدی کی ڈیل میں سب سے اہم بات اور مقصد فلسطین کے مسئلہ کا حل پیش کرنا ہے ۔اس ڈیل کے مطابق فلسطینیو ں سے کہا گیا ہے کہ وہ فلسطین کی موجودہ تقسیم کہ جس میں غاصب صیہونیوں کا 88فیصد پر قبضہ اور ناجائز تسلط قائم ہے یہ قائم رہے اور باقی ماندہ علاقوں کو بھی اسی کے ساتھ ضم کر لیا جائے اور اس کام کے لئے امریکی صدر نے گذشتہ برس فلسطین کے تاریخی دارلحکومت یروشلم کو غاصب صیہونی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا اور اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا تھا یہ صدی کی ڈیل کا آغاز تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ صدی کے ڈیل میں جو شرائط فلسطینیوں کے لئے رکھی گئی تھیں یا مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کا کہا گیا تھا اس کا پہلا قدم تھا۔اسی طرح امریکی صدر کی جانب سے پیش کی جانے والی صدی کے ڈیل میں کہا گیا ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس سے دستبردار ہو جائیں جس کے لئے اب امریکی سفارتخانہ بھی وہاں منتقل کیا جا چکاہے، اس کے بعد امریکی صدر اس ڈیل میں چاہتے ہیں کہ فلسطینی اپنے حقوق کی ہر گز بھی بات نہ کریں جیسا کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینی مظلوم قوم اپنے حقوق کی خاطر امریکی صدر کی اس صدی کی ڈیل کے مقابلہ میں پا برہنہ ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے اور یہ فلسطینیوں کی استقامت و مزاحمت کا ہی نتیجہ ہے کہ امریکہ اورا سرائیل کے متعدد منصوبے تاحال ناکام ہو رہے ہیں۔اس ڈیل کے تحت امریکہ فلسطینیوں سے چاہتا ہے کہ وہ اسرائیل کی غاصب اور جعلی ریاست کے سامنے تسلیم خم ہو جائیں، قبلہ اول بیت المقدس کو فراموش کر دیں اور اسے صیہونیوں کے لئے چھوڑ دیا جائے جبکہ ساتھ ہی ساتھ دنیا بھر میں موجود ساٹھ لاکھ فلسطینی اپنے حق واپسی فلسطین کی بات بھی نہ کریں اور اس طرح سے امریکہ مکمل طور پر فلسطین کو اسرائیل کی غاصب اور جعلی ریاست کا حصہ بنا دے۔
گذشتہ دنوں امریکی صدر کے اعلی سطحی وفد نے بھی اس صدی کی ڈیل پر عمل درآمد کے لئے مشرق وسطیٰ کے چند ایک ممالک کا دورہ کیا ہے جبکہ اس ڈیل کے بارے میں کھل کر وجاحت اس وقت سامنے آئی تھی جب سعودی فرمانروا محمد بن سلمان نے اپنے امریکہ کے سفر کے دوران ایک صحافی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے امریکی صدر کی جانب سے فلسطینیوں کے لئے صدی کی ڈیل کے بارے میں کچھ اس طرح سے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو چاہئیے کہ امریکی صدر کی صدی کی ڈیل کو تسلیم کر لیں ورنہ اپنا منہ بند رکھیںیعنی شٹ اپ۔اب حالیہ دنوں امریکی صدر کے اعلیٰ سطحی وفد نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں پیش کردہ صدی کی ڈیل کے متعلق دورے میں سعودی عرب، اردن، مصر، قطر کا دورہ کیا ہے ۔امریکی اعلیٰ سطحی وفد کا مقصد مسئلہ فلسطین سے متعلق ان ممالک کہ جن کے نام پیش کئے گئے ہیں کے سربراہان مملکت سے گفتگو کرنا تھا۔اسی طرح امریکی صدر کے اعلیٰ سطحی وفد کے دورے کے آخر میں مقبوضہ فلسطین جانا تھا جہاں انہوں نے قطر، سعودی عرب، مصر اور اردن کے سربراہان مملکت سے ملاقات کے بعد اسرائیلی جعلی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی ہے اور ایسی خبریں بھی ہیں کہ اردن میں کچھ مشترکہ ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔تاہم اس سارے معاملے میں اصل فریق کہ جس کے ساتھ نا انصافی اور ظلم کی تاریخ ایک سو سالہ طویل عرصہ طے کر چکی ہے، بات چیت نہیں کی گئی یعنی امریکی حکومت یہ چاہتی ہے کہ چند ایک خطے کی عرب ریاستوں کو ساتھ ملا کر فلسطینیوں پر صدی کی ڈیل تھونپ دی جائے اور اس طرح امریکی صدر کے خیال کے مطابق مسئلہ فلسطین کا حل ہو جائے گا۔
امریکی صدر کی جانب سے پیش کی جانیو الی صدی کی ڈیل اور اس کے تحت انجام پانے والے تمام اقدامات کو پہلے ہی نہ صرف فلسطینی بلکہ عالمی برادری بھی مسترد کر چکی ہے اور ایسے حالات میں کہ جب گزشتہ بارہ ہفتوں سے روزانہ مقبوضہ فلسطین میں نام نہاد بنائی گئی اسرائیلی باؤنڈریز پر فلسطینیوں کے پر امن احتجاجی مارچ بعنوان ’’حق واپسی ‘‘ انجام پا رہے ہیں تو دوسری جانب چند ماہ قبل ہی عالمی برادری نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کثیر تعداد میں امریکی صدر کے ان فیصلوں کو مسترد کر دیا تھا کہ جن میں یروشلم کو صیہونی جعلی ریاست کا دارلحکومت قرار دیا گیا تھا اور امریکی سفارتخانہ کی یروشلم منتقلی کا اعلان کیا گیا تھا تاہم امریکی حکومت کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کے باوجود امریکی سفارتخانہ کو القدس شہر منتقل کر دیا گیاہے۔
دراصل امریکی صدر صدی کی ڈیل کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی طرف گامزن ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ مکمل طور پر صیہونی لابی کے زیر تسلط آ چکے ہیں اور تمام فیصلوں میں انسانی حقوق اور فلسطینی عوام کو یکسر نظر انداز کر چکے ہیں جس کے باعث امریکی سیاست مداروں کو بھی شدید تشویش لا حق ہو رہی ہے۔
تاریخ فلسطین کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطین کی مظلوم ملت کی پیٹھ میں ہمیشہ ہی عرب خائن حکمرانوں نے خنجر گھونپا ہے اور حالیہ دنوں ایک مرتبہ پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر خطے کی چند عرب بادشاہتیں اور ڈکٹیتر یہ چاہتے ہیں کہ فلسطین پر غاصب صیہونی اور جعلی ریاست اسرائیل کے وجود کو مکمل طور پر قانونی حیثیت دے ڈالیں لیکن امریکہ و اسرائیل سمیت عرب دنیا کے ان خائن حکمرانوں کو فلسطین کی عظیم اورشجاع ملت کی مزاحمت کا سامنا ہے کہ جو اپنے سینوں پر گولیوں کو کھا کر یہ بتا رہے ہیں کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے صدی کی ڈیل اوراس ڈیل کی حمایت کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہیں گے۔واضح رہے کہ فلسطین کی غزہ پٹی میں کئی ہفتوں سے انجام پانے والے احتجاجی مظاہرے اور اب تک ہزاروں کی تعداد میں شہید اور زخمی ہونے والے فسلطینیوں کا ایک ہی موقف ہے، وہ یہ کہ ہم اپنے حق واپسی کو نظرانداز نہیں کر سکتے اور القدس شہر فلسطین کا ابدی دارلحکومت ہے۔