تحریر : ڈاکٹر رَمزی بارود
اسرائیلی پولیس وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف تحقیقات میں ان کے نزدیک تر پہنچ چکی ہے اور اب انھیں کوئی چیز بچا نہیں سکے گی۔
پولیس نے نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے مختلف اسکینڈلوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی تحقیقات کی ہے۔حال ہی میں ان سے جرمنی سے دو ارب ڈالرز مالیت کی آبدوزوں کے سودے میں خرد برد کی تحقیقات کی ہے۔ ان سے ٹیلی کام کے کرپشن کے ایک کیس میں بھی پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔اس میں وہ مرکزی ملزم ہیں۔پولیس کی ان سے پوچھ تاچھ کے ایک ہفتے کے بعد ان کی اہلیہ سارہ اور دفتر کے ڈائریکٹر ایزرا سیدوف پر فراڈ اور عوامی اعتماد کی خلاف ورزی کے الزام میں فرد جرم عاید کردی گئی ہے۔
اس تناظر میں یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ نیتن یاہو کے دائیں بازو کے اتحادی غزہ پر ایک نئی جنگ مسلط کرنے کے لیےغوغا آرائی کررہے ہیں۔اسرائیلی سیاست دان ماضی میں ملک میں سیاسی بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے سکیورٹی بحران کو بروئے کار لاچکے ہیں اور نتیجتاً انھوں نے غزہ پر مصنوعی جنگ مسلط کردی تھی۔اس طرز عمل سے شاید نیتن یاہو کو مزید کچھ وقت مل جائے لیکن اس کے سوا انھیں اور کچھ فائدہ نہیں مل سکے گا۔
اسرائیلی عہدے داروں کے حالیہ بیانات میں سے سب سے خطرناک اور سنگین بیان بپلک سکیورٹی کے وزیر گیلاد ایردان کا تھا۔ انھوں نے آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر ایک بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اس ممکنہ جنگ کا سد جارحیت کے نام پر دفاع کیا ہے اور اس سے اسرائیلی حکام کی مراد دہشت گردی کے انفرااسٹرکچر کو تہس نہس کرنا ہے۔
اگر اس حقیقت کا جائزہ لیا جائے کہ غزہ کی مزاحمتی حکمت عملی تو زیادہ تر غیر متشدد عوامی انتفاضہ پر مشتمل ہے تو اس صورت حال میں یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ غزہ پر ممکنہ جنگ مسلط کرنے کا مقصد اسرائیل میں دائیں بازو کے مخلوط اتحاد کا دھڑن تختہ ہونے سے بچانا ہے ۔یہ اتحاد اب تک نیتن یاہو ایسے کایاں سیاست دان کی مہارتوں کی بدولت ہی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
غزہ کے پتنگیں اڑانے والے
اس مرتبہ اسرائیلیوں کی جنگ کے لیے غوغا آرائی بالکل عجیب اور مضحکہ خیز ہے کیونکہ وہ غزہ سے پتنگیں اڑانے والوں پر اپنی توجہ مرکوز کررہے ہیں۔غزہ سے بعض فلسطینی اپنی جلتی ہوئی پتنگوں کو اسرائیل کی جانب اڑا رہے ہیں اور پھر انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔
اسرائیل کو یقینی طور پر ان فلسطینیوں کے تحفظات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی جو گذشتہ کئی ہفتوں سے اسرائیلی باڑھ کے نزدیک سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ان کے مطالبات پر آواز دھرنے کے بجائے اسرائیلی وزیر تعلیم نفتالی بینیٹ نے فوج سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ جلتی پتنگیں اڑانے والوں کو قتل کر دیا جائے۔انھوں نے حماس پر یہ الزام عاید کردیا ہے کہ وہ ان پتنگوں کو ’’ کنٹرول کررہی ہے‘‘۔
اسرائیل کی نام نہاد وزیر انصاف ایلیٹ شیکڈ بھی ان سے کسی طرح پیچھے نہیں رہیں اور انھوں نے آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہنے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا کہ’’ ایک جلتی پتنگ اور قسام راکٹ میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔
مسٹر گیلاد ایردان کو اس سے کچھ سروکار نہیں کہ پتنگیں اڑانے والوں میں زیادہ تر بچے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ’’عمر کچھ حیثیت نہیں رکھتی ۔ وہ دہشت گرد ہیں،انھیں خطرہ پیدا کرنے سے روکا جانا چاہیے’’۔
اس طرح کی متشدد منطق اور صورت حال کا مطلب برآری کے لیے استعمال اسرائیل میں بحث ومباحثے کا ایک معروف طریقہ ہے ۔اس مباحثے کے وقت کے حوالےسے بھی کوئی سوال اٹھا سکتا ہے کہ ایسے وقت میں متشدد فوجی کشیدگی کو کیوں ہوا دی جارہی ہے جب نیتن یاہو بدعنوانی کے اسکینڈلوں میں گھرتے چلے جارہے ہیں؟
اسرائیلی وزیر اعظم کا مخلوط اتحاد فی الحال تو برقرار ہے لیکن ان کا مستقبل غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار ہوتا جا رہا ہے اور یہ مختلف النوع سیاست دان انھیں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کی رخصتی کی صورت میں ان کی جگہ نئی مخلوط حکومت میں اپنی جماعتوں کو آگے لانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
ہم ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل سے قطع نظر فلسطینیوں سے متعلق اسرائیلی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔نیز نیتن یاہو کی دوعشرے کی حکمرانی نے اسرائیل میں دائیں بازو کی سیاست کو مستحکم کیا ہے اور پورے ملک کے سیاسی نظریات ہی کو دائیں بازو کی جانب لڑھکا دیا ہے۔
نیتن یاہو کا سیاسی تخت
درج ذیل اسرائیلی سیاست دا ن نیتن یاہو کے سیاسی تخت کے وارث ہوسکتے ہیں:
نفتالی بینیٹ : نیتن یاہو کی کابینہ میں وزیر تعلیم ہیں اور بیت یہودی ( جیوش ہوم) پارٹی کے لیڈر ہیں۔ یہ دائیں بازو کے کٹڑ قوم پرست سیاست دان ہیں ۔وہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے شدید مخالف ہیں اور ایک عرصے سے غربِ اردن میں قائم تمام غیر قانونی یہودی بستیوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کی وکالت کرتے چلے آرہے ہیں۔
مسٹر بینیٹ نے مارچ میں اسرائیل کے آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے اس ارادے کا اظہار کردیا تھا کہ اگر نیتن یاہو وزارت عظمیٰ کے منصب اور سیاسی منظر سے الگ ہوجاتے ہیں تو وہ اس عہدے کے لیے امیدوار ہوں گے۔
انھوں نے امریکن اسرائیل پبلک افئیر کمیٹی کی کانفرنس میں اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ مقبوضہ غربِ اردن میں یہودی آباد کاروں کے غیر قانونی بلاکوں یا بستیوں کو خالی نہیں کیا جائے گا۔
انھوں نے واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مقبوضہ سرزمین کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے پر مغرب کی تنقید وقتی ہی ہوگی ۔ان علاقوں کو ضم کرنے کے دو ماہ کے بعد بالکل خاموشی چھا جائے گی ۔یہ علاقے بیس سال اور چالیس سال کے بعد بھی ہمارے ہیں اور پھر ہمیشہ ہمارے ہی رہیں گے‘‘۔
موشے کاہلون : یہ صاحب نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں وزیر خزانہ ہیں ۔انھیں دائیں بازو کے انتہا پسند مخلوط اتحاد میں ایک اہم رہ نما خیال کیا جاتا ہے۔وہ نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ کے رکن تھے لیکن انھیں وزیراعظم سے بعض داخلی امور پر اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔
کاہلون بھی نام نہاد امن عمل کی بحالی کے لیے وکالت کرتے رہتے ہیں لیکن وہ بھی نیتن یاہو کی طرح فلسطینی قیادت کو مذاکرات کی ناکامی کا مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں کی غیر قانونی بستیوں سے متعلق اسرائیل کی پالیسیوں کو اس کا مورد الزام نہیں ٹھہراتے ہیں۔
اگر وہ وزیراعظم بن جاتے ہیں تو وہ اپنی جماعت کو دائیں بازو کے قریب تر لانے کے لیے نیتن یاہو کی سیاسی حکمت عملی پر ہی عمل پیرا رہیں گے اور مستقبل میں ملک کے قوم پرستوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ مخلوط اتحاد بنائیں گے۔
جدعون سعار : یہ بھی لیکوڈ پارٹی کے سابق رکن ہیں۔انھوں نے جماعت میں اپنی مقبولیت کے باوجود 2015ء میں نیتن یاہو سے شدید اختلافات کے بعد سیاست کو خیرباد کہہ دیا تھا۔تاہم وہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ ان کا حتمی مقصد مستقبل میں ملک کی قیادت کرنا ہے۔
دو ریاستی نعرہ
نیتن یاہو کے کرپشن اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد سعار دوبارہ سیاست میں واپس آچکے ہیں۔وہ مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے سیاسی پروگراموں کی وضاحت کررہے ہیں۔انھوں نے دوریاستی حل کو دوریاستی نعرہ کہہ کر مسترد کردیا ہے، صرف اس بنا پر نہیں کہ وہ ایک جمہوری ریاست میں مل جل کر رہنے میں یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کے بہ قول اسٹیٹس کو ہی اسرائیل کے لیے مناسب ہے۔
ایلٹ شیکڈ ۔ اسرائیل کی دائیں بازو کی کٹڑ قوم پرست ،انتہا پسند سیاست دان ہیں اور اس وقت نیتن یاہو کی کابینہ میں وزیر انصاف ہیں۔یہ نسل پرستانہ موقف کی حامل ہیں اور اکثر اپنے اشتعال انگیز نقطہ نظر کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ شیکڈ بینیٹ کی جیوش ہوم پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں ۔
ایلیٹ شیکڈ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ انھیں فلسطینی ریاست کے قیام سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ اس کی تو وہ کئی مرتبہ وضاحت کرچکی ہیں بلکہ ان کا ملک میں غیر یہود کمیونٹیوں اور جمہوریت کے بارے میں مجموعی نقطہ نظر ایک بڑا مسئلہ ہے۔
انھوں نے اسرائیلی روزنامے ہارٹز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں ریاستِ اسرائیل کا ایک یہودی ریاست کے طور پر کردار برقرار رکھا جانا چاہیے ،بعض اوقات ایسا برابری کی قیمت پر کیا جاتا ہے۔اسرائیل ایک صہیونی ریاست ہے۔ یہ اس میں آباد تمام قوموں کی ریاست نہیں ہے۔اس لیے یہود کی اکثریت کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے خواہ اس کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی قیمت ہی کیوں نہ چُکانا پڑے۔
آوی گابی : وزارت عظمیٰ کے ممکنہ امیدوار وں میں آوی گابی آخری نمبر پر ہیں۔ انھوں نے چار سال قبل کل آنو پارٹی کو لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے خیر باد کہا تھا۔
گابی بھی نیتن یاہو اور دائیں بازو کے دوسرے سیاست دانوں کے غیر قانونی یہودی بستیوں کے بارے میں انتہا پسندانہ نقطہ نظر کے حامل ہیں ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ یہودی بستیاں ہی اسرائیل کے دائیں بازو کے لیے سب سے طاقتور سیاسی حلقہ ہیں۔
انھوں نے لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے فوری بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فلسطینیوں کے ساتھ امن کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو منہدم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسرائیل کی سیاست ضرور پیچیدہ ہوسکتی ہے اور اس کا مظہر اس کی مخلوط پیچیدہ حکومتیں ہیں لیکن جب اسرائیل کے فوجی قبضے کا سوال آتا ہے تو کم وبیش تمام سرکردہ سیاست دان یکساں موقف کے حامل اور اکثر ہم آواز ہوتے ہیں
نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل سے قطع نظر اسرائیل کی فلسطین کے بارے میں پالیسیاں ناقابل تبدیل رہیں گی۔اس صورت میں فلسطینیوں پر یہ فوری ذمے داری عاید ہوتی ہیں کہ وہ اسرائیلی قبضے ،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور غیر قانونی یہودی بستیوں ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی ایک متحدہ حکمت عملی وضع کریں۔