انہی میں ایک نام ’روابی ٹیک‘ نامی ایک ٹیکنالوجی کمپنی کا ہے جو فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت ہونے کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط قائم کیے ہوئے ہے۔
یہ گروپ اسرائیل کے ساتھ تجارتی شعبے میں تعاون ہی نہیں بلکہ صیہونی دشمن کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں معاونت اور مدد بھی فراہم کررہا ہے۔ اسرائیل کو بھی ’روابی ٹیک‘ جیسی کمپنیوں کی سروسز کے حصول پر مسرت اور شادمانی ہے کیونکہ ان جیسے ادارے فلسطینی اتھارٹی کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے میں مدد دے رہے ہیں اور دوسری طرف اسرائیل کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں سروسز مہیا کرتے ہیں۔
اسرائیل کے کثیرالاشاعت عبرانی خبار ’ہارٹز‘ نے اپنی حالیہ ایک رپورٹ میں ’رابی ٹیک‘ نامی کمپنی کی جانب سے صیہونی ریاست کو فراہم کی جانے والی سروسز کا احوال بیان کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام فلسطینی ایک جیسے نہیں۔ اگر غزہ کی پٹی میں کچھ ’سر پھرے‘ مٹھی بھر لوگ اسرائیل پر راکٹ داغتےآتشی کاغذی جہاز پھینکتے یا گیسی غباروں سے حملے کرتے ہیں تو دوسری طرف ’روابی ٹیک‘ جیسی کمپنیاں بھی موجود ہیں جو اسرائیل کو ٹیکنالوجی اور سیکیورٹی کے شعبے میں بھرپور خدمات فراہم کررہی ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ ’روابی ٹیک‘ کی خدمات اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں کا ایک بڑا طبقہ اسرائیل کے ساتھ ’بقائے باہمی‘ کے اصول پر عمل پیرا ہے۔
یہ تمام تفصیلات اخبار میں ’ٹیکنالوجی خدمات ، جنگ نہیں۔ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان بقائے باہمی کے فروغ کا ثبوت‘ میں شائع کی گئی ہیں۔
روابی ٹیک نامی کمپنی مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ میں ’روابی‘ کے مقام پر قائم ہے اور اسی نام سے یہ کمپنی مشہور ہے۔ یہ مرکز ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کررہا ہے جس میں موبائل فون سروسز اور دیگر خدمات شامل ہیں۔
غیرمعمولی تعاون
اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ بات کہنے دیں کہ ساری فلسطینی ایک جیسے نہیں۔ غزہ میں اگر کچھ لوگ راکٹ فائر کرتے، کشتیوں کے ذریعے حملے کرتے یا نشانہ باز مزاحمت کار صیہونی آباد کاروں کو نشانہ بناتے ہیں تو ان کے درمیان ہم ’روابی ٹیک مرکز‘ کو بھی دیکھتے ہیں جو صرف فلسطینیوں کو نہیں بلکہ اسرائیلیوں کو بھی ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنی سروسز مہیا کررہا ہے۔ حالیہ عرصے کے دوران رابی ٹیک نے اسرائیل کو ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں غیرمعمولی تعاون مہیا کیا ہے۔
صیہونی مبصرین کا کہنا ہے کہ روابی ٹیک روزانہ کم سے کم 100 پروگرامات اسرائیلیوں کو مہیا کررہا ہے۔ اس مرکز کا افتتاح گذشتہ برس کیاگیا تھا اور یہ اسرائیل کے معاصر دیگر ٹیکنالوجی کے اداروں کے ساتھ بھی مکمل رابطے میں ہے اور تعاون کررہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ فلسطینیوں کے اس ٹیکنالوجی پروگرام کی طرف سے فراہم کی جانے والی سروسز کے حجم سے واقف نہیں۔ یہ غزہ کی پٹی اور اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو بہ یک وقت اپنی سروسز فراہم کررہا ہے اور اس کمپنی نے اسرائیل کا یوکرائن اور بھارت جیسے ممالک پر انحصار کم کردیا ہے اور ایسی کمپنیاں جن کے 20 ہزار ملازمین دوسرے ملکوں میں موجود کمپنیوں سے وابستہ تھے اس گروپ کی وجہ سے اسرائیل کے اندر اپنی خدمات فراہم کررہے ہیں۔
فلسطین۔ اسرائیل کے درمیان تعاون کا پل
اسرائیلی تجزیہ نگار الیران روبین ان کمپنیوں کا بھی ذکر کیا ہے جو اسرائیل میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو بھی سروسز مہیا کرتی ہیں۔ ان میں ’میلانوکس ٹیکنالوجیز‘ سر فہرست ہے۔
کمپنی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایال ولد من کا کہنا ہے کہ انہوں نے سنہ2010ء میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تعاون کے لیے ’پُل‘ کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت ہمارے کمپنی میں صرف 10 افراد ملازم تھے۔ بعد ازاں یہ کمپنی مسلسل وسعت اختیار کرتی چلی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ سنہ2014ء کو انہوں نے اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ جان کیری اور ایک فلسطینی کاروباری شخصیت بشار المصری’روابی ٹیک‘ کے بانی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ہم نے دو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے مشترکہ مقاصد اور اہداف کے تحت کام کرنے سے اتفاق کیا تھا۔
اُنہوں نے کہا اس وقت ان کی کمپنی 100 ملازم فلسطینی علاقوں میں کام کرتے ہیں جن میں سے 20 کا تعلق غزہ کی پٹی سے ہے۔