ہی بہتر ہوسکتے ہیں۔ اب فلسطینیوں کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ وہ اب عرب دنیا میں اپنے روایتی اتحادیوں پر انحصار نہیں کرسکتے ،اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان طاقت کا عدم توازن، فلسطینیوں کے اندرونی ڈھانچے اور بیرونی امداد پر مکمل انحصار نے بھی انہیں کم جھکاؤرکھنے پر مجبور کردیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تیزی سے بڑھتے دو طرفہ تعلقات سے فلسطینی بے خبر نہیں، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ’’حتمی معاہدے‘‘ کے لئے وسیع پیمانے پر خطے کے ممالک کی شمولیت کی ضرورت ہوگی۔ فلسطینی اتھارٹی ریاض کے اس اقدام پر صدمے سے دوچار ہوگئی جب اس نے ائیر انڈیا کی تل ابیب تک سعودی ائیراسپیس کو استعمال کرنے کیا اجازت دی۔ اس کے بعد ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو حق ہے کہ اس کی اپنی سرزمین ہو ۔ جب مارچ میں غزہ میں انسانی حقوق کے بارے وائٹ ہاؤس کے اجلاس کا فلسطینی حکام بائیکاٹ کیا تو مصر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ فلسطینی علاقائی ایجنڈ ے کے مرکزی نقطہ نظر کو نہیں دیکھ رہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے رہنماؤں میں اب بے چینی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ بعض عرب رہنماؤں نے اپنی توجہ ایران کی منتقل کردی ہے جو یمن، عراق، اور شام میں تہران کے ملوث ہونے پر ہے۔ اب ان کا آخری آپشن بین لاقوامی برادری کی طرف ہے، جیسا کہ حالیہ برسوں میں، بین الاقوامی اداروں، معاہدوں اور کنونشنوں کو اپنی حکمت عملی کے حصہ کے طور پر عالمی فورموں کے ذریعہ ریاستی حیثیت حاصل کرنی ہوگی یا بین الاقوامی مجرمانہ شکایات کرنے سے اسرائیل پر دباؤ بڑھے گا اور انہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ یہ طریقہ کار کامیاب ہوسکتا ہے تاہم اس وقت عالمی حالات ایسے نہیں کیونکہ اوباما اور ٹرمپ انتظامیہ نے ثابت کیا کہ وہ اقوام متحدہ میں فلسطین کے مخالف ہوں گے۔ بیرونی دنیا سے عدم تعاون کی وجہ سے انہیں اندر دیکھا پڑتا ہے ، فلسطینیوں کو اندرونی بحران کا سامناہے، فلسطینی اتھارٹی کے پا س کوئی منصوبہ نہیں،انہوں نے قیادت82 سالہ عباس کو دے رکھی ہے جو2005سے اس کے صدر ہیں۔ فلسطینی شہری فلسطین اتھارٹی کی ناکامیوں سے مایوسی کا شکار ہیں جو انہیں آزادی دلانے میں ناکام رہی،عرب ممالک کی ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں، امریکا، اسرائیل اور سعودہی عرب معاہدے کی راہ ہموار ہوچکی ہے ۔ کشرنر اور محمد بن سلمان نے مشرقی وسطی اسٹریٹجک اتحاد کا خاکہ پیش کیا ہے جس سے ایران کو روکنے اور فلسطینیوں کو امن معاہدے پر اتفاق کرنے پر توجہ دی جائے گی۔اب، علاقائی تبدیلیوں نے اسرائیل کے لئے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو معمولی طور پر تبدیل کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ آج، اسرائیل کے زیادہ سے زیادہ روایتی دشمن کمزور یا غیر جانبدار ہو چکے ہیں۔ یقین نہیں ہے کہ ایران کے خلاف بعض عرب ریاستوں کے درمیان ایک حقیقی اتحاد فلسطینی مسئلہ پر حقیقی پیش رفت کے بغیر علاقائی امن پیدا کرے گا۔ تاہم، نیتن یاہو اور ٹرمپ انتظامیہ نے اتفاق کیا ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے گرم تعلقات کے حوا لے سے ایک معاہدے تک پہنچ سکتا ہے ۔ جریدہ لکھتا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لئے مشیر جیسن گرین بلاٹ اور جیرڈ کوشنر سے ملاقاتیں کیں اور غزہ کی پٹی میں منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا ،دونوں امن منصوبے کو فروغ دینے کیلئے قطر چلے گئے جہاں مزید ملاقاتیں کریں گے ۔ غزہ پر توجہ ممکنہ طور پر فلسطینی صدر محمود عباس غصے کا سبب بنے گا ،امریکی حکام کے دورے سے قبل محمود عباس کے ساتھیو ں نے ان کے دورے کوبے معنی اور وقت کا زیاں کہا تھا لیکن ٹرمپ کے مشیروں کے سعودی عرب ، اسرائیل، اردن ، قطر اور مصر کے دورے ہو رہے ہیں ان میں فلسطینی ساتھ ہوں یا نہ ہوں ۔ فلسطینی قیادت نے دسمبر سے امریکی حکام کا بائیکا ٹ کررکھا ہے جب ٹرمپ نے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ کئی ماہ سے فلسطینی اتھارٹی نے ٹرمپ انتظامیہ اور کچھ خلیج فارس کے ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے نظریں بند کررکھی تھیں۔ مارچ میں نیویارک میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے یہودی رہنماؤں کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں میں انہوں نے امن مواقع ضائع کرنے پر مبینہ طور پر فلسطینیوں پر تنقید کی اور کہا کہ انہیں ا س معاہدے کو قبول کرنا چاہیئے جو انہیں پیش کیا جائے۔ اسرائیلی صحافی باراک ریوڈ نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جو اس وقت کمرنے میں موجود تھا کہ محمد بن سلمان کے ریمارکس نے حاضرین کو حیران کردیا اور ایسے لگا جیسے وہ کرسیوں سے گرگئے۔ یہ مؤقف اس سے بالکل برعکس تھا جب2001میں ولی عہد عبداللہ بن عبدا لعز یز نے اس وجہ سے امریکا سے تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دی کہ واشنگٹن اسرائیل کو فلسطینیوں پر حملہ کرنے سے روکے۔