نابلس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) جولائی 2015ء کو مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس میں دوما کے مقام پر صیہونی دہشت گردوں نے ایک نہتے فلسطینی خاندان کو گھر میں بند کرکے مکان پر تیل چھڑک کرآگ لگائی جس کے نتیجے میں سعد دوابشہ، اس کی اہلیہ اور ایک شیر خوار زندہ جل کر شہید ہوگئے جب کہ چار سالہ بچہ احمد بری طرح جھلس گیا۔
فلسطینیوں کے خلاف صیہونی دہشت گردی کا یہ بدترین اور سفاکانہ واقعہ تھا جس کی عالمی سطح پر مذمت ک گئی۔ صیہونی حکومت نے بھی صیہونیوں کے جرم کا رد عمل کم کرنے کے لیے اعلان کیا کہ وہ اس واقعے کے مجرموں کو عبرت ناک سزا دے گی۔ چند ہفتوں کے اندر اندر دوابشہ خاندان کے قاتل پکڑ لیے گئے۔ ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے۔ مجرموں نے اعتراف جرم بھی کرلیا اور انہیں قید کی سزائیں بھی سنادی گئیں مگر حال ہی میں اسرائیل کی مرکزی عدالت نے دوابشہ خاندان کے زخموں پر اس وقت ایک بار پھر نمک پاشی کی جب عدالت نے قاتلوں کے اعتراف جرم کے پر مشتمل ایک اہم حصے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مجرموں کو بچانے کی راہ ہموار کی۔اسرائیلی مرکزی عدالت کا یہ فیصلہ انصاف کا قتل عام ہی نہیں بلکہ زخم رسیدہ دوابشہ خاندان کا ایک بار پھر قتل عام ہے۔ متاثرہ خاندان نے اسرائیلی عدالت کے فیصلے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اسرائیلی عدالت انصاف دلانے کے بجائے قاتلوں کی بری کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ صیہونی عدالت کا یہ فیصلہ سراسر قاتل صیہونی شرپسندوں کی طرف داری اور انصاف کے بجائے ظلم کی جانب داری ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسرائیل کے شہر لُد کی مرکزی عدالت نے 2015ء میں دوما کے گاؤں میں فلسطینی دوابشہ خاندان کے قاتلوں کے بنیادی اعترافات کا ایک حصّہ کالعدم کر دیا ہے۔ عدالت کا مؤقف ہے کہ اعترافی بیان کا مذکورہ حصّہ تشدد کے بل بوتے پر زبردستی لیا گیا۔ عدالت نے بیان کے بقیہ حصّے کو قابل قبول قرار دیا۔
اسرائیلی مرکزی عدالت نے مرکزی ملزم عمیرام بن الوئیل اور جرم میں ملوث ایک کم عمر صیہونی کے بنیادی اعترافات کو ختم کر دیا۔
تین برس قبل اپنے گھر میں شوہر اور بچوں سمیت شدت پسند صیہونی آباد کاروں کے ہاتھوں زندہ جلائی جانے والی فلسطینی خاتون کے والد حسین دوابشہ نے بتایا کہ "اسرائیلی عدالتوں نے دُہرا معیار اپنا رکھا ہے۔ تشدد کے ذریعے فلسطینی قیدیوں سے حاصل ہونے والے بیانات پر اعتماد کیا جاتا ہے جب کہ وہ ہی عدالت شدت پسند صیہونیوں کے اعترافی بیانات کو اس حیلے کے ساتھ مسترد کر دیتی ہے کہ یہ یہ بیان غیر قانونی طریقوں سے حاصل کیے گئے ہیں۔
آٹھ سالہ احمد جلائے جانے والے فلسطینی دوابشہ خاندان کا واحد بچ جانے والا فرد اور اس بھیانک جرم کا اکلوتا گواہ ہے۔ اس نے گفتگو کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے میرے ماں باپ لوٹا دو”۔ یہ بول کر احمد اپنے دادا حسین دوابشہ کے گھر کے سامنے کھیل کود میں لگ گیا۔
شدت پسند صیہونی آباد کاروں کا ایک گروپ لُد میں عدالت کے آگے جمع ہوا اور اس نے دوابشہ خاندان کے سامنے اس بہیمانہ کارروائی پر فخر کا اظہار اور رقص بھی کیا۔
تین برس قبل شدت پسند صیہونی آباد کاروں نے مغربی کنارے میں نابلس کے گاؤں دوما میں ایک فلسطینی گھرانے کے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ اس واقعے کے نتیجے میں 18 ماہ کا بچہ علی فوت ہو گیا جب کہ اس کے والدین اور بھائی چار سالہ احمدÂ شدید زخمی ہو گیا۔ بعد ازاں خاندان کا سربراہ سعد دوابشہ اور اس کی بیوی ریہام دوابشہ بھی زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔
اسرائیلی عدالتوں سے خیرکی امید نہیں
شہید سعد دوابشہ کے ورثاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دوابشتہ خاندان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور عبرت ناک سزا دینے کے بجائے مجرموں کو پروٹول کو دیا گیا اور مظلوم خاندان کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی۔ اسرائیلی عدالتیں بھی شہید خاندان اور اس کے ورثاء کو انصاف فراہم نہیں کرسکیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز اسرائیل کی مرکزی عدالت نے دوابشہ خاندان کے قاتلوں کے بیانات کو یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ دونوں ملزمان سے بیانات ’جسمانی دبا‘ اور تشدد کے ذریعے لیے گئے تھے اور ملزمان کے خلاف زیادہ تر الزمات قابل قبول نہیں ہیں۔
دوابشہ خاندان کے ترجمان نصر دوابشہ نے بتایا کہ اس کے بھائی شہید سعد دوابشہ، ان کی اہلیہ اور ایک بچے کو گھر میں زندہ جلا کر شہید کرنے اور ایک بچے کو شدید زخمی کرنے والے مجرموں کو اسرائیلی عدالتیں بچانے کی کوشش کررہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی عدالت کا یہ مؤقف من گھڑت اور بے بنیاد ہے کہ ملزمان سے دوران حراست شاباک کے تفتیش کاروں نے تشدد کے ذریعے بیانات حاصل کیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی عدالتیں انصاف کے بجائے ظلم کی حمایت فیصلے کرتی ہیں اور ان سے کسی خیر کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی۔
’وفا‘ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے نصر دوابشہ نے کہا کہ دونوں ملزمان میں سے ایک نے دوابشہ خاندان کو قتل اور دوسرے نے منصوبہ بندی میں اس کی مدد کا اعتراف کیا تھا مگر اب اسرائیلی مرکزی عدالت مجرموں کو عبرت ناک سزا دینے کے بجائے انہیں تحفظ فراہم کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مظلوم ہیں، ہمیں اسرائیلی عدالتوں سے انصاف نہیں ملا اور اب ہم عالمی عدالتوں سے رجوع کا حق رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ دوابشتہ خاندان کو تین سال قبل صیہونی دیشت گردوں نے غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں دوما کے مقام پر رات کو سوتے ہوئے ان کے گھر میں زندہ جلا کر شہید کردیا تھا۔ شہید ہونے والوں میں سعد دوابشہ، ان کی اہلیہ اور ایک شیر خوار بچہ شامل تھے جب کہ ایک چار سالہ بچہ شدید طورپر جھلس گیا تھا جو طویل علاج کے بعد اب روبہ صحت ہے۔
نصر دوابشہ نے کہا کہ صیہونی عدالت نے ان کے بھائی اور بچوں کو شہید کرنے والے مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں عدالت کے نئے فیصلے سے سخت صدمہ پہنچا ہے۔ اب واضح ہوگیا ہے کہ صیہونی عدالتیں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔
احمد اور قتل عام کی شواہد
نصر دوابشہ نے کہا کہ گھر میں آگ لگائے جانے کے نتیجے میں جھلس کر زخمی ہونے والے احمد دوابشہ کی عمر اس وقت 7 سال ہے اور وہ اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ رہا ہے۔
احمد کی حالت دیکھنے کے بعد بھی اگر صیہونی عدالتیں انہیں انصاف نہیں دے سکتیں تو صاف ظاہر ہے کہ ان کے خاندان کو ایک بار پھر قتل کیا جا رہا ہے۔ نصر نے بتایا کہ جب ان کے بھائی کے خاندان کو آگ میں جلایا گیا تو اس وقت احمد دوابشہ کی عمر چار سال تھی اور اسے وہ ساری کیفیت اور ظلم اچھی طرح یاد ہے۔
احمد اب بھی اپنی ماں اور شہید باپ کو یاد کرتا ہے اور وہ اس صدمے کو بھول نہیں سکا ہے۔ وہ مسلسل تین ماہ تک اسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیرعلاج رہا ہے جہاں اس کے آگ میں جھلسے حصے کا لیزر کے ذریعے علاج کیا گیا۔
ظالمانہ فیصلے کا مقابلہ
درایں اثناء جامعہ النجاح میں عالمی قوانین کے ماہر ڈاکٹر راید بدویہ نے کہا کہ اسرائیلی مرکزی اطلاعات کی طرف سے ملزم کے پہلے سے حاصل کردہ اعترافی بیانات متروک اور قابل قبول نہیں ہیں۔ عدالت کا مؤقف ہے کہ یہ اعترافی بیان ملزم نے اپنی آزادانہ مرضی سے نہیں دیا بلکہ اس سے لیا گیا۔ اس لیے جبرا لیے گئے بیان پر دی گئی سزا بھی ساقط تصور ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اعترافات کا مرکزی حصہ جسے جرم میں جوہری حصہ بھی تصور کیاجاتا ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو ملزم پر الزام بھی عائد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر بدویہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی مرکزی عدالت نے اپنے حساب میں دوابشہ خاندان کے قاتلوں کی سزا میں تخفیف نہیں کی بلکہ ان کی بریت کی راہ ہموار کی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بدویہ نے کہا کہ صیہونی مرکزی عدالت کے فیصلے کا عالمی سطح پر مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی عدالت کے فیصلے کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے مگر یہ کام انسانی حقوق کی تنظیموں کو کرنا ہوگا۔
عالمی قانون کے ماہر فلسطینی پروفیسر نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں دوابشہ خاندان کے کیس کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی عدالتوں میں لے جانے کی کوشش کریں۔ انسانی حقوق کے گروپوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دوابشہ خاندان کو انصاف دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔