الخلیل (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی قوم بہادروں، جانثاروں اور عزم و استقلال کے پیکرمردو خواتین کی قوم کہلاتی ہے۔ انہی بہادروں اور جانثاروں میں ایک نام ’سوزان العویوی‘ کا بھی ہے۔ سوزان کو قدم قدم پر صیہونی حکام اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے انتقام کا نشانہ بنایا گیا مگر انہوں نے ہرگام پر بہادری اور استقامت کے ساتھ تمام مصائب وآلام کا مردانہ وارمقابلہ کیا۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سوزان العوی اس وقت اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ ان کا آبائی تعلق دریائے اردن کے مغربی کنارے الخلیل سے ہے اور الخلیل کے فلسطینی باشندے ان پر بجا طورپر فخر کرتے ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک خاتون خانہ، بچوں کی شفیق ماں، اپنے خاندان کی کفیل، سماجی کارکن اور سیاسی رہنما ہیں۔ دوسری طرف قید وبند کی صعوبتیں بھی ان کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔چیلنجز کا مقابلہ
سوزان العویوی نے جامعہ القدس سے ’ایم اے‘ کی ڈگری لے رکھی ہے۔ مگر ڈگری کے حصول کے محض چند ہفتے کے بعد صیہونی حکام نے انہیں حراست میں لے لیا۔ گرفتاری سے قبل وہ الخلیل بلدیہ کے الیکشن کی مضبوط امیدوار کے طور پر سرگرم ہوئیں۔ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اپنے خاندان کی کفالت کے ساتھ سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔
28 مئی 2017ء کو سوزان العویوی نے الخلیل میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ انتخابی مہم کے دوران صیہونی فوج کی طرف سے انہیں طرح طرح کے حربوں سے بلیک میل کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ انہیں اسرائیلی انٹیلی جنس کے اہلکاروں کے نام سے نامعلوم نمبروں سے فون کیے جاتے اور انہیں دھمکیاں دی جاتیں۔ تاہم انہوں نے تمام تر دھمکیوں کے باوجود الیکشن مہم ترک کی اور نہ ہی فلسطینی قوم کے لیے آواز بلند کرنے چھوڑا۔
بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے سے قبل فلسطینی اتھارٹی کے غنڈہ گردوں نے بھی ان کے گھر میں گھس کر توڑپھوڑ کی اور انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسیران کی رفیق
انتخابات سے قبل وہ الخلیل میں انسانی حقوق اور اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سرگرم کارکن کے طور پر شہرت حاصل کرچکی تھیں۔ وہ اسیران کے مسائل اور مصائب وآلام کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرتیں اور مقامی اور عرب ذرائع میں بھی فلسطینی اسیران کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتیں۔
جیل سے باہر بھی وہ اسیران کی رفیق تھیں اور اب صیہونی زندانوں کے اندر رہتے ہوئے بھی وہ فلسطینی قیدیوں کی رفیق اور غم گسار ساتھی ہیں۔
خاندان کی پرورش
ایک سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ سوزان العویوی نے اپنے بچوں کی کفالت، تعلیم وتربیت اور ان کی بنیادی ضروریات میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ان کے بڑے بیٹے کی عمر 17 اور چھوٹے کی 10 سال ہے۔ وہ اپنے گھرمیں اپنے بچوں کے لیے ایک مثالی ماں ہیں۔
تاہم گذشتہ سال ماہ صیام کے آخری ایام میں سوزان العویوی کو ان کے بچوں سے جدا کردیا گیا۔ اب بچے اپنی دادی کے ساتھ رہ رہے ہیں جب کہ سوزان العویوی اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔
العویوی کی والدہ رقیہ العویوی المعروف ام احمد نے بتایا کہ سوزان العویوی جانتی ہیں کہ انہیں قدرت نے ایک فولادی خاتون بنایا ہے۔ گرفتاری ،تشدد اور توہین آمیز تفتیش اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور کوئی بھی صیہونی حربہ ان کے عزائم کو شکست نہیں دے سکتا۔ اس نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا ہے اور وہی عن قریب ہم سب کے حالات کو بہتر کرے گا۔
صیہونی مظالم
ام احمد نے کہا کہ ان کا پورا خاندان صیہونی ریاست کے مسلسل جبرو تشدد اور مظالم کا شکار ہے۔ سوزان العویوی ان کی گیارہویں اولاد ہے جسے صیہونی فوج نے حراست میں لیا۔ اس کے دیگر بچوں کو بھی اسرائیلی فوج باربار گرفتار کرتی رہتی ہے۔ گذشتہ برس پانچ مئی ہمارے لیے صدمے کا دن تھا جب صیہونی فوج کی ایک بھاری نفری نے ہمارے گھروں کا محاصرہ کرلیا۔ میرے بیٹے احمد سے پوچھ گچھ شروع کی گئی۔ ہم سمجھے فوجی اسے گرفتار کرنے آئے ہیں۔ مگر چار گھنٹے کی مسلسل توڑ پھوڑ کے بعد صیہونی میری بیٹی سوزان کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
ام احمد کا کہنا تھا کہ صیہونی فوجیوں نے ہمارے گھروں میں گھس کر ایک ایک چیز تل پٹ کردی۔ سوزان کا لیپ ٹاپ، موبائل فون اور دیگر ضروری چیزیں گاڑی میں ڈالیں اور لے کر نامعلوم مقام کی طرف لے گئے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اسے عسقلان نامی حراستی مرکز میں لے جایا گیا ہے۔
سوزان کی گرفتاری کے وقت اسرائیلی جیلوں میں درجنوں فلسطینی خواتین پابند سلاسل تھیں۔ ان کی گرفتاری کے بعد اسیرات کی تعداد 60 ہوگئی۔ ان خواتین کو دامون اور حیفا کے الشاھرون جیل میں رکھا گیا ہے۔ ان اسیرات میں 16 سال کی بچیوں سمیتÂ 53 سال کی خواتین شامل ہیں۔