فلسطین کے ان گنت مقدس مقامات میں خطہ ارضی میں حرمین شریفین کے بعد فلسطین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ وکعبہ موجود ہے۔ قبلہ اوّل کے خلاف سال ہا سال سے جاری یہودی و نصارایٰ کی سازشوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کے دوسرے مقدس ترین مقامات بھی خطرے میں ہیں۔ انہی میں دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میںÂ واقع تاریخی جامع مسجد ابراہیمی جسے ’حرم ابراہیمی‘ بھی کہا جاتا ہے فلسطین میں قبلہ اوّل کے بعد دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ فلسطین میں یہودیÂ اور صیہونی سرطان کے سرائیت کرنے کے بعد فطری طور پر وہاں کے دوسرے مقدس مقامات کی طرح مسجد ابراہیمی بھی صیہونیوں کی مسلسل ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔
یہاں تک کہ اکیس اگست سنہ 1994ء بہ مطابق 15 رمضان المبارک 1414ھ کا وہ منحوس اور مکروہ وقت بھی آن پہنچا جب ایک انتہا پسند صیہونی دہشت گرد گولڈ چائن نے مسجد میں گھس کرنماز میںÂ کھڑےÂ فرزندان توحید پراندھا دھند گولیاں برسائیں۔ صیہونی درندے کی وحشیانہ فائرنگ سے 29 نمازی حالت سجدہ میں جام شہادت نوش کرگئے جب کہ 150 شدید زخمی ہوئے۔ صیہونی دہشت گرد باروکھ گولڈ چائن نے نہتے نمازیوں پر500 گولیاں برسائی تھیں۔ تاریخ انسانی کی اس بدترین بربریت کے بعد صیہونیوں نے اگلی چال یہ چلی کہ مسجد ابراہیمی کو مسلمانوں اور صیہونیوں کے درمیان زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کردیا جائے۔ یوں اس مسجد کے آدھے سے زاید حصے کو صیہونیوں نے غصب کرلیا اور اسے صیہونی انتہا پسندوں کی عبادت کے لیے مختص کرتے ہوئے اس میں فلسطینیوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی۔
مسجد ابراہیمی میں عبادت پر قدغنیں
مسجد اقصیٰ میں درجنوں نمازیوں کے قتل عام کے 24 سال کے بعد آج بھی مسلمانوں کا یہ مقدس مقام صیہونی قدغنوں کی زد میں ہے۔ جگہ جگہ کیمرے، الیکٹرانک الات، بلند وبالا کنٹرول ٹاور، ان پر موجود ہمہ وقت مشین گنوں سے لیس صیہونی فوجی اس بات کی گواہی دیتے کہ مسجد ابراہیمی اب پوری طرح صیہونیوں کے نرغے میں ہے۔
مسجد میں نمازیوں کے قتل عام کی تحقیقات کے لیے اسرائیل نے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا جسے ’شمغار‘ کمیشن کا نام دیا گیا۔ یہ کمیشن مسجد کی تقسیم کی ایک گہری صیہونی سازش تھی جس کا مقصد مسجد ابراہیمی کو یہودیوں اور مسلمانوں میں باہم تقسیم کرنا تھا۔
صیہونی تسلط
فلسطین میں یہودیوں کے غاصبانہ تسلط کے قیام کے بعد مسجد ابراہیمی مسجد انتہا پسند صیہونیوں کی ریشہ دوانیوں کے نشانے پر ہے۔ مسجد ابراہیمی کے ڈائریکٹر الحاج منذر رفیق ابو الفیلات کا کہنا ہے کہ سنہ 1967ء کے بعد مسجد ابراہیمی اور اس میں نماز کے لیے آنے والے فلسطینی بار ہا صیہونیوں کےÂ حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
سنہ 1970ء میں شدت پسند صیہونی موشے ڈایان کے مسجد میں داخلے کے بعد اس کے نیچے غار کو بند کردیا گیا۔ سنہ 1976ء میں صیہونیوں شرپسندوں نے مسجد میں گھس کر قرآن کریم کے کئی نسخے نذرآتش کیے جس کے بعد فلسطینÂ سمیت پوری اسلامی دنیا میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور کئی روز تک اسرائیل اور صیہونیوں کی سازشوں کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے۔
سنہ 1994ء مسجد ابراہیمی کے حوالے سے نہایت المناک سال ہے کیونکہ اسی برس باروکھ گولڈچائن نامی ایک صیہونی دہشت گرد نے مسجد میں نماز فجر کی ادائیگی میں مصروف نمازیوں کوگولیوں سے بھون ڈالا جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید اور دسیوں زخمی ہوئے تھے۔
اس سے قبل صیہونی حکام نے سنہ 1987ء میں مسجد کے تمام داخلی اور خارجی دروازوں پر الیکٹرانک آلات، کیمرے اور جاسوسی کے دیگر آلات نصب کرکے اس پر قبضہ مضبوط کرنے کی سازش کی تھی۔
فلسطین میں صیہونی آبادی کے امور کے تجزیہ نگار عبدالھادی خنتش کا کہنا ہے کہ چوبیس سال گذرنے کے بعد آج بھی ہم مسجد ابراہیمی میں نمازیوں کے قتل عام کے آثار دیکھتے ہیں۔
اب صیہونی آباد کاروں اور اسرائیلی فوج نے عملا مسجد ابراہیمی کو اپنے غاصبانہ قبضے میں لے رکھا ہے۔ نہ صرف مسجد بلکہ اس سے متصل مدرسہ اسامہ المنقذ، سبزی منڈی، دفتر اوقاف، القفاصین بازار،السھلہ بازار، مسجدا لکیال، مسجد الاقطاب اور قدیم تکیہ جیسے مقامات پر غاصب صیہونی قابض ہیں۔