سنہ 1987ء میں فلسطین میں ’انتضاضہ سنگ‘ کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کے دوران فلسطینی شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے غلیلوں کا استعمال کیا۔ آج سنہ2018ء ہے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی ایک بار پھر صیہونی دشمن کے خلاف اپنے حق واپسی کے لیے سراپا جدو جہد ہیں۔ سنہ 1987ء کے بعد اب تک صیہونی ریاست نے اپنے دفاع کے لیے نہ جانے اسلحے کے کتنے انبار لگائے ہوں گے مگر فلسطینیوں کے ہاتھ میں آج بھی وہی غلیل ہے۔ ایک طرف کلاشنکوفیں، گولے، بم اور میزائل ہیں اور دوسری طرف نہتے فلسطینیوں کے ہاتھ میں وہی غلیل ہے۔ یہ غلیل بھی صیہونی ریاست کے تمام تر بھاری اور تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں پر بھاری ثابت ہوئی ہے کیونکہ صیہونی دشمن اس غلیل سے بھی خوف زدہ ہے۔
سنہ 1987ء کی تحریک انتفاضہ کئی سال جاری رہی۔ اس تحریک کے دوران فلسطینی عوام مسلسل ایسے غلیل ہی کا استعمال کرتے رہے۔ یہ معصوم ہتھیار غزہ اور غرب اردن میں فلسطینیوں میں ایسا مقبول ہوا کہÂ اسے فلسطینی تحریک انتفاضہ کی علامت قرار دیا گیا۔
فلسطینی شہریوں کے ہاتھوں میں موجود یہ غلیل اپنی نوعیت کا منفرد ہتھیار ہے۔ یہ رسیوں اور ربڑ سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کے وسط میں پتھر رکھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ پتھر پھینکنے والا اسے دائرے کی شکل میں گھما کر پتھر پھینکتا ہے۔ اپنے ہدف پر لگنے سے اس کے نتیجے میں کوئی بہت بڑا جانی نقصان تو نہیں ہوتا تاہم صیہونی فوجیوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے یہ ہتھیار کافی ہے۔
سنہ 2000ء میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کے دوران غلیل کا استعمال قدرےÂ کم ہوگیا تھا۔ سنہ 2005ء میں جب صیہونی حکومت نے غزہ کی پٹی اور غرب اردن کی بعض صیہونی کالونیوں کوخالی کرنے کا حکم دیا تو یہ کہا جانے لگا تھا کہ اس انخلاء کے دیگر محرکات میں ایک محرک فلسطینیوں کا غلیل کے ذریعے صیہونی آباد کاروں اور فوجیوں پر حملے بھی ہیں۔ صیہونیوں کی ایک بڑی تعداد نے یہ شکایت کی تھی ان کے قریب بسنے والے فلسطینی نوجوان آئے روز ان پر غلیل سے سنگ باری کرتے ہیں۔
غزہ میں 30 مارچ 2018ء کو ایک نئی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی۔ اگرچہ اس تحریک کو ’عظیم الشان واپسی‘ مارچ کا نام دیا گیا مگر اس تحریک کا ایک خاصہ غلیل بھی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور پناہ گزینوں کے حق واپسی کے لیے شروع ہونے والی تحریک میں فلسطینی نوجوانوں نے سنگ باری کے لیے غلیل کا بھرپور استعمال کیا۔
غلیل کے ذریعے سنگ باری کوئی زیادہ مشکل کام نہیں مگر ہرغلیل کی سنگ باری کی مسافت الگ الگ ہوتی ہے۔