تیزی کے ساتھ پھیلتے اس زہر نے فلسطینیوں کونئی بیماریوں میں مبتلا کرنا شروع کردیا ہے۔ شہری اگر اسپتالوں میں امراض سے شفایاب ہو رہے ہیں تو دوسری طرف یہ فضلہ فلسطینی زندگی کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو بہت سے غیرضروری مشاغل سے فرصت ملے تو وہ اس طرف کوئی توجہ دے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ فلسطین کے قانون میں طبی فضلے کو بہ حفاظت ٹھکانے لگانے کا قانون موجود ہے۔ قانون میں صراحت کی گئی ہے کہ اسپتالوں کے طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے الگ سے مخصوص عملہ مقرر کیا جائے گا جو فضلے اور استعمال شدہ چیزوں کو شہریوں کے لیے خطرہ بننے سے بچانے کے لیے کام کرے گا تاکہ شہری امراض، وباؤں اور ماحولیاتی مسائل سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ قانون صرف کاغذ کی ایک پرچی سے زیادہ نہیں کیونکہ اس پر کسی قسم کا عمل درآمد دکھائی نہیں دیتا۔
زہر قاتل سے دسیوں شہری وبائی امراض کا شکار
حال ہی میں مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میںÂ بنی نعیم کے علاقے میں دسیوں طلباء اور شہریوں نے شکایت کہ طبی فضلے کی وجہ سے انہیں سانس کی تکلیف کے ساتھ سر، پیٹ، کھانسی اور کئی دوسرے وبائی عوارض کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
شہریوں نے بتایا کہ بنی نعیم میں جگہ جگہ طبی فضلے کے ڈھیروں کو آگ لگائی گئی جس کے نتیجے میں ان سے اٹھنے والا زہریلا دھواں اور اس مضر صحت گیسوں نے شہریوں کو بیمار کردیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ طبی فضلے کے مضر اثرات سے نہ صرف انسان متاثر ہو رہے ہیں حیوانی اور نباتاتی زندگی پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
بنی نعیم کے ایک نوجوان طالب علم خلیل ناصر نے بتایا کہ قصبے میں حالیہ وباؤں کی وجہ طبی فضلے اور اسے لگائی گئی آگ ہے۔ اگرچہ لوگ طبی باقیات کو نذرآتش کرکے انہیں ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں بدبو، دھواں اور خطرناک نوعیت کی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔
خلیل ناصر نے بتایا کہ ان کے محلے میں طبے فضلے کے ایک ڈھیر کو کئی روز تک آگ لگی رہی جس کے نتیجے میں کئی افراد بیمار پڑ گئے۔ متاثرین میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں جن کا زیادہ وقت گھروں میں گذرتا ہے۔
الخلیل شہر کے سرکاری اسپتال کے ڈائریکٹر جنرل ولید زلوم نے تسلم کیا کہ اسپتال کے شعبہ ایمرجنسی میں بنیی نعیم کے 54 مریضوں کو لایا گیا جو سانس سمیت دیگر کئی وبائی امراض سے متاثر تھے۔ یہ بیماریاں انہیں طبی فضلے کے زہریلے دھوئیں اور مضر صحت گیسوں کی وجہ سے لاحق ہوئی تھیں۔ سرکاری اسپتال کے علاوہ ہلال احمر فلسطین کی طرف سے بھی بنی نعیم اور دوسرے علاقوں میں سیکڑوں افراد کو فوری طبی امداد فراہم کی۔ یہ افراد بھی اسی طبی فضلے کے خطرناک اثرات کا شکار ہوئے تھے۔
ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
بنی نعیم میں طبی فضلے کے باعث بیمار ہونے والے درجنوں شہریوں کے واقعے نے سماجی اور عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ واقعے کے بعد ہلال احمر فلسطین کی ترجمان عراب فقہا نے کہا کہ بنی نعیم کی بلدیہ اور طبی امداد کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت طبی فضلے کو بہ حفاظت زمین میں دفن کرنے کے لیے پلان بنانے پر اتفاق کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپتالوں کے باہر آبادی کے اندر طبی فضلے کو جمع کرنے کے لیے نصب کردہ ٹینکوں میں کئی کئی روز تک فضلہ پڑا رہتا ہے۔ حال ہی میں نامعلوم افراد نے اسے آگ لگا دی تھی جس پر اس کے منفی اثرت دور تک پہنچے۔ طبی فضلے کو لگنے والی آگ نے مضر صحت گیسیں خارج کیں جس کے نتیجے میں شہریوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ طبی فضلے کو بروقت اور محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کرنے والے سرکاری عمال اور ملازمین کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔