مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کا ساحلی علاقہ غزہ کی پٹی براہ راست اسرائیلی فوج کے تسلط میں نہیں مگر اسرائیلی ریاست اس علاقے پرمختلف حربوں سے براہ راست یا بالواسط طورپر تسلط قائم کیے ہوئے ہے۔ مقامی آبادی کی نقل حرکت پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
ایک رپورٹ میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ریاست کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں اور بالواسطہ یا براہ راست قبضے کے حربوں کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طورپر ایسے 50 حربے ہیں جو غزہ پر اسرائیلی ریاست کے تسلط کو ثابت کرتے ہیں۔ذیل میں ان حربوں کو ترتیب وار پیش کیا جا رہا ہے۔
1۔۔ غزہ کی پٹی کی فضائی حدود بند ہیں تاہم اسرائیلی ریاست کے بمبار طیارے اور جاسوس ڈرون طیاروں کو کھلے عام استعمال کیا جاتا ہے۔ غزہ کا واحد بین الاقوامی ہوائی اڈہ بمباری سے تباہ کیا جا چکا ہے اور فلسطینی فضائی حدود کے استعمال سے محروم ہیں۔
2۔۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے ہوائی اڈے کو 2001ء میں بمباری کر کے تباہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد اس اڈے کی تعمیر نو اور غزہ کی بندرگاہ کی تعمیر پر پابندی عائد ہے۔ غزہ کے عوام کے لیے بیرونی راستہ صرف مصر سے ہو کر گذرتا ہے اور غزہ اور مصر کے درمیان رفح گذرگاہ سال کا بیشتر وقت بند رہتی ہے۔ دوسری گذرگاہ غرب اردن سے متصل ہے۔ بیت حانون گذرگاہ سے کڑی پابندیوں کے بعد صرف پانچ فی صد فلسطینیوں کو آمد ورفت کی اجازت دی جاتی ہے۔ تجارتی مقاصد کے لیے کرم ابو سالم گذرگاہ بھی بند ہے جب کہ سمندری راستے سے اسدود بندرگاہ کو مشروط طور پر استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
3۔۔ اسرائیلی ریاست نے غزہ کی پٹی کے عوام کے خلاف گاجر اور چھڑی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ علاقے کی واحد تجارتی گذرگاہ کرم ابو سالم بند ہے اور فلسطینیوں کے لیے سمندر میں ماہی گیری کا علاقہ بھی محدود کر دیا گیا ہے۔
4۔۔ غزہ اور اسرائیل کے درمیان پورے علاقے میں سرحد پر 300 میٹر چوٹی پٹی ’ممنوعہ‘ علاقہ قرار دی گئی ہے۔ اس میں داخل ہونے والے کسی بھی فلسطینی کو گولی مار دی جاتی ہے۔ وہاں جانے والے کئی فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔
5۔۔ سنہ 1993ء میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان طے پائے معاہدے کے تحت اسرائیل نے غزہ کے شہریوں کو سمندر میں 20 میل تک ماہی گیری کا حق تسلیم کیا تھا مگر عملا فلسطینیوں کو تین سے چھ میل کے علاقے میں محدد کر دیا جاتا ہے۔
6۔۔ غزہ کے ماہی گیرے کے پیشے کو اسرائیلی کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کا سامنا ہے۔ غزہ کے ماہی گیر اپنی کشتیوں کی مرمت سے محروم ہیں کیونکہ انہیں غزہ سے باہر سے فائبر گلاس لانے پر پابندی عائد ہے۔
7۔۔ غزہ کی پٹی میں کسی قسم کی تعمیراتی اسکیموں کے لیے تعمیراتی سامان کی منظوری اسرائیل سے لینا پڑتی ہے۔ اسرائیل اپنی مرضی سے سیمنٹ اور لوہا سمیت دیگر تعمیراتی سامان غزہ لانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے غزہ میں تعمیراتی کام ٹھپ ہو چکے ہیں۔
8۔۔ غزہ کی پٹی پرعائد کردہ پابندیوں نے غزہ کی پٹی کےعوام کے حسین خواب بھی ان سے چھین رکھے ہیں۔ غزہ سے باہر جانے والے فلسطینیوں کو طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا رہتا ہے اور کڑی شرائط کے بعد صرف پانچ فی صد فلسطینیوں کو سفر کی اجازت دی جاتی ہے۔ بقیہ پچانوے فی کے سفر کی درخواستیں مسترد کر دی جاتی ہیں۔
9۔۔ غزہ کی پٹی کے ایک تہائی شہریوں کی غرب اردن اور 1948ء کے مقبوضہ علاقوں اور بیت المقدس میں براہ راست رشتہ داریاں ہیں۔ سنہ 2007ء کے بعد اسرائیلی ریاست نے غزہ کی پٹی اور غرب اردن کے ایک دوسرے کے عزیزواقارب سے ملنے سے روکا جا چکا ہے۔ دونوں طرف کے فلسطینی ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک نہیں ہو سکتے۔ شادی بیاہ اور موت مرگ میں شرکت سے محروم ہیں۔ حتیٰ کہ غزہ کے زخمی اور مریض علاج کے لیے بھی غرب اردن نہیں جا سکتے۔
10۔۔۔ سنہ 2010ء سے اسرائیلی حکام نے غزہ کی پٹی کے عوام پر سفری پابندیوں کا ایک نیا حربہ مسلط کیا۔ غزہ کے شہری اس وقت تک غرب اردن یا فلسطین کے دوسرے علاقوں کے لیے اس وقت تک سفر نہیں کر سکتے جب تکÂ اسرائیلی فوج انہیں سیکیورٹی کلیئرنس نہیں دے گی۔ اسی طررح غزہ کی پٹی کے شہریوں کے غرب اردن کے راستے النبی گذرگاہ سے ہو کر اردن داخل ہونے اور بن گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈے کو استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔
11۔۔ غزہ کی پٹی کے شہریوں کو غرب اردن میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی حالانکہ اسرائیلی ریاست ان دونوں علاقوں کو ایک علاقے کا حصہ تسلم کرچکی ہے۔
12۔۔۔ سنہ 2016ء میں سیکیورٹی خدشات کی آڑ میں اہالیان غزہ پر نئی پابندیاں عائد کیں۔ اس کے بعد غزہ کے مریضوں، عمر رسیدہ، خواتین، بچوں، کاروباری شخصیات اور عالمی تنظیموں کے ارکان کو بھی مشکوک قرار دے کران کے غزہ کے سفر پر پابندی عائد کی گئی۔
13۔۔ سنہ 2000ء میں فلسطین میں انتفاضہ الاقصیٰ کا آغاز ہوا۔ فلسطینی شہریوں کے اہل خانہ کو غرب اردن میں داخلے کے لئے درجہ اول کی اہمیت کو ختم کردیا گیا۔
14۔۔ غزہ کا کوئی فلسطینی غرب اردن میں اپنے کسی بھائی بہن کی وفات میں بھی نہیں جا سکتا۔ عید کے ایام میں غزہ اور غرب اردن کے شہریوں کو ایک دوسرے سے ملنے سے روک دیا گیا۔
15۔۔ غزہ کے شہریوں پر سنہ 2015ء میں ایک نئی پابند عائد کی گئی جس میں ان کے القدس اور مسجد اقصیٰ میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی۔ بعد ازاں ایک نیا اعلان جاری کیا گیا کہ غزہ کے صرف 200 فلسطینی جن کی عمریں 60 سال سے زائد ہوں وہ نماز جمعہ کے لیے مسجد اقصیٰ آسکتے ہیں۔ سنہ 2016ء کے آخر سے ان پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
16۔۔ غزہ کے شہریوں کو سنہ 2012ء اور 2013ء کے دوران غرب اردن میں موسیقی محافل میں شرکت کی اجازت تھی جسے بعد ازاں چھین لیا گیا۔ اس دوران 47 طلباء اور 5 اساتذہ کا ایک گروپ ٹور پر غرب اردن آیا تو اسرائیلی فوج نے واپسی پر متعدد طلباء اور اساتذہ کو گرفتار کرلیا۔
17۔۔ غزہ کی پٹی کے عوام تعطیلات گذارنے فلسطین کے دوسرے علاقوں میں نہیں جا سکتے اور یہ پابندی 2000ء کے بعد سے عائد ہے۔
18۔۔غزہ کی بحری، بری اور فضائی ناکہ بندی غزہ کے عوام پر دباؤ ڈالنے اور انہیں بلیک میل کرنے کا ایک حربہ ہے جس کا مقصد غزہ کے عوام پر سختیاں کرکے انہیں علم بغاوت بلند کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
19۔۔۔ غزہ کے عوام پر عائد کردہ پابندیوں میں ایک قدغن الیکٹرانک کے سامان کی ہے۔ غزہ کے بچوں اور بڑوں کو الیکٹرانک سامان، آلات اور بیٹریوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
20۔۔ غزہ کی معیشت کو اسرائیل نے اپنے ہاتھوں میں یرغمال بنا رکھا ہے۔ غزہ کو وہی سامان فراہم کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جسے اسرائیل چاہتا ہے۔ غزہ کی پٹی کو نئے کار خانوں کے لیے باہر سے مشینری منگوانے کی اجازت نہیں۔ اگر باہر سے کوئی ایسی مشینری منگواتا ہے تو اسرائیلی فوج اسے چھین لیتی ہے۔
21۔۔ غزہ کی بری گذرگاہوں بالخصوص کرم ابو سالم پر اسرائیلی فوج کا کنٹرول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ میں مقامی مارکیٹ اور تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہیں۔
22۔۔۔ غزہ کی پٹی میں اشیاء صرف کی قلت مہنگائی کا موجب بن رہی ہے۔ غزہ کو درآمد کردہ بیشتر اشیاء اسرائیلی ساختہ ہوتی ہیں اور ان کی قیمت اور مقامی قیمت میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔
23۔۔ غزہ کی پٹی کے عوام کو سیمنٹ کی سپلائی پر پابندی عائد ہے اور مشروط طورپر اگر سیمنٹ لے جانے کی اجازت ہے تو اس کے لیے اسرائیلی کمپنی ’نیچر‘ کی سیمنٹ خریدنے کی پابندی ہے۔
24۔۔ سنہ 2000ء کے بعد غزہ کی پٹی کی جامعات بھی اسرائیلی پابندیوں کا شکار ہیں۔
25۔۔۔ سنہ 2017ء میں غزہ کے تاجروں کو 1173 پرمٹ جاری کیے گئے۔ جب کہ جنوری 2017ء میں ان کی تعداد 3500 تھی۔
26۔۔ اسرائیلی قدغنوں کی زد غزہ کے بچوں پر بھی پڑتی ہے۔ اگر کسی فیملی میں والد اور والدہ فلسطین کے الگ الگ مقامات پررہتے ہیں تو کم بچوں کو ایک جگہ رکھنے پر پابندی عائد ہے۔
27۔۔ غزہ کی پٹی میں سنہ 2014ء کی جنگ میں تباہ شدہ املاک کی تعمیر نو کے لیے فلسطینیوں کو تعمیراتی سامان لانے کے لیے اسرائیل کو اپنی تمام تر ذاتی معلومات اور کوائف جمع کرانا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ایک تصدیق نامہ جمع کرانا پڑتا ہے جس میں مذکورہ شخص کی املاک کی جنگ کے دوران مسماری کی تصدیق کی کی گئی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ضروری نوعیت کے تعمیراتی سامان کی ایک فہرست بھی منسلک کرنا پڑتی ہے۔ اسرائیل اس کے بعد بھی اس فہرست کو منظور یا مسترد کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔
28۔۔ غزہ کی پٹی کے عوام کا ایک بنیادی مسئلہ صاف پانی کی قلت ہے۔ اس مسئلے کا محرک بھی اسرئیل ہے۔ غزہ میں پانی صاف کرنے کے کارخانے یا تو اسرائیل نے تباہ کر رکھے ہیں یا ان کی مرمت پر پابندی عائد ہے۔ غزہ میں پانی صاف کرنے کے فلٹریشن کی مرمت پر یہ کہہ کر پابندی عائد کردی جاتی ہے کہ اس میں استعمال ہونے والا میٹریل عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔
29 ۔۔۔ حتیٰ کہ دانتوں کی صفائی اور ان کی بھرائی کے لیے استعمال ہونے والے سامان کو بھی ممنوعہ سامان میں شامل کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس میں استعمال ہونے والا مواد بھی فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
30۔۔۔ غزہ کے عوام پر عائد کردہ اسرائیلی پابندیوں میں زرعی سامان، زرعی آلات حتیٰ کہ فلسطین کے دوسرے علاقوں سے پھولوں کی درآمد پر بھی پابندیی عائد ہوتی ہے۔
31۔۔ اسرائیلی فوج کے طیارے غزہ کی پٹی میں زیرکاشت رقبے، فصلوں ، سبزیوں اور پھلوں کے باغات پر زہریلے مواد کا چھڑکاؤ کرکے انہیں تباہ کردیتے ہیں۔ فلسطینیوں کو غزہ کی سرحد سے 500 میٹر فاصلے تک کسی قسم کی کاشت کاری کی اجازت نہیں دی جاتی۔
32۔۔۔ غزہ کا 96 فی صد پانی پینے کے قابل نہیں۔ سیوریج اور پانی کی پائپ لائنوں کی مرمت پر بابندی عائد کی گئی ہے جس کے باعث شہریوں ک پانی کی ترسیل میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
33۔۔۔ غزہ کی پٹی میں تعمیرو مرمت کا شعبہ بھی بدحالی کا شکار ہے۔ اس کی وجہ بھی اسرائیل کی طرف سےعائد کردہ ناروا پابندیاں ہیں۔
34۔۔۔ غزہ کی پٹی اور غرب اردن کے درمیان فلسیطنیوں کی ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ دونوں علاقوں کے فلسطینی ایک دوسرے کے ہاں میلوں ٹھیلوں اور دیگر ثقافتی تقریبات میں نہیں جاسکتے۔
35۔۔۔ فلسطینیوں کی اپنی کوئی کرنسی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی مجبورا اسرائیلی کرنسی شیکل میں لین دین پر مجبور ہیں۔ فلسطینیوں کو لوٹنے اور انہیں اقتصادی بحران سے دوچار کرنے کا یہ بھی ایک مکروہ حربہ ہے۔
36۔۔۔ غزہ کی پٹی میں سماجی بہبود کے لیے کام کرنے والے اداروں کو بھی اسرائیلی ریاست کی طرف سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ تعلیمی اور سماجی ادارے غزہ میں جامعات، خواتین، بچوں، معذور افراد کی مدد کرنے اور ثقافتی امور میں ان کی معاونت سے قاصر ہیں۔
37۔۔ غزہ کی پٹی میں علاج کے لیے استعمال ہونے والے آلات اور ادویات کی ترسیل پر بھی پابندی عائد ہے۔ کئی اسپتالوں میں علاج کے لیے استعمال ہونے والی مشینری صرف اس لیے نہیں کہ اسرائیل بیرون غزہ سے ایسا کوئی سامان یامشینری لانے کی اجازت نہیں دیتا۔
38۔۔۔ غزہ کی پٹی میں ایسے لاعلاج مریضوں کی غرب اردن یا اسرائیل کے اسپتالوں میں علاج کے لیے کڑی شرائط عائد ہیں۔
39۔۔۔ مارچ 2015ء کو اسرائیلی حکام نے غزہ سے بینگن اور بھنڈی جیسی عمومی سبزیاں برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ سنہ 2007ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ان دو سبزیوں کو غزہ سے باہر فروخت کرنے کی اجازت دی گئی۔ غزہ سے اب مجموعی طورپر 400 ٹن سبزیاں دوسرے فلسطینی علاقوں ک بھیجی جاتی ہیں مگر وہ بھی کڑی شرائط کے ساتھ مشروط ہیں۔
40۔۔ غزہ کی پٹی کو لکڑی کی ترسیل پر پابندی عائد ہے۔ جب کہ غزہ سے دوسرے فلسطینی شہروں کو فرنیچر کی سپلائی بھی بند ہے۔
41۔۔ غزہ کی جامعات کے لیے کیمیائی، حیاتیاتی مواد، سائنسی مقاصد ، طب اور انجینیرنگ کے شعبے میں تجربہ گاہوں میں استعمال ہونے والے سامان کو غزہ لے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ حتیٰ کہ غزہ کی پٹی کے شہریوں کو UPS تیارکرنے کے لیے بھی خام مال لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
42۔۔۔ غزہ کے ماہرین تعلیم کو بیرون ملک کانفرنسوں میں شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اسی طرح دنیا بھر سے غزہ آنے والے ماہرین پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔
43۔۔۔ غزہ کی پٹی کو الیکٹرومیگنیٹک سامان کی ترسیل پر بھی پابندی ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی حکومت نے غزہ کی پٹی میں 3G انٹرنیٹ کی محدود سہولت دی گئی ہے مگر 4G سروسز پر پابندی ہے۔
44۔۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی اور غرب اردن کے درمیان زرعی اجناس کی سپلائی پر 2007ء میں پابند عائد کی مگر سنہ 2015ء میں اس پابندی میں معمولی نرمی کی گئی ہے۔
45۔۔۔ غزہ کے جو شہری بیرون میں شادی کرنا چاہتے ہیں انہیں شادی کے لیے فلسطین کے دوسرے علاقوں یا فلسطین سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
46۔۔۔ روزانہ کی بنیاد پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ بعض علاقوں میں 24 میں سے صرف 4 گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ یوں غزہ کی بجلی پر بھی اسرائیل کا ہاتھ ہے۔
47۔۔ غزہ کی پٹی میں تیار ہونے والے ملبوسات کو باہر لے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
48۔۔۔ غزہ کی ڈاک پر بھی اسرائیلی ریاست کی کڑی نظر ہے اور ہرقسم کی ڈاک کو چھان نین کے بعد لے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔