مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے باخبر ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت 15 مئی کو مقبوضہ بیت المقدس کے اطراف میں واقع کئی اہم علاقوں پر مشتمل’E1‘ اسکیم پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی حکومت کے تین سینیر وزراء نے القدس کو غرب اردن سے الگ کرنے کی سازش پر عمل درآمد کرتے ہوئے بیت المقدس میں ’E1‘ منصوبے کو عملی شکل دینے کی تیاری کررہے ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی وزیر برائے ہاؤسنگ، تعلیم اور وزیرقانون نے القدس میں اسرائیلی بلدیہ اور پلاننگ کمیٹی کے ساتھ مل کر ’E1‘ اسکیم کی منظوری کے لیے تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 15 مئی 2018ء کو امریکی سفارت خانے کوالقدس کو منتقل کرنے کا اعلان کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست امریکی صدر کے سفارت خانے کی منتقلی کے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ماضی میں امریکی حکومتیں اسرائیل کو ’ای ان‘ اسکیم پرعمل درامد پر خبردار کرتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی ریاست اس پر آج تک عمل درآمد نہیں کرسکی مگر اب امریکا میں موجود حکومت اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اسرائیل ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی موجودگی میں دو ریاستی حل کو تباہ کرنے کے لیے القدس کے علاقوں میں ایک نئی غاصبانہ تقسیم کی سازش کررہی ہے۔
خیال رہے کہ ’E1‘ اسکیم کا اعلان اسرائیل نے 1994ء میں کیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت 12 ہزار 443 مربع کلو میٹر کے علاقے پر ایک نیا سیکٹر قائم کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ اس اسکیم میں بیت المقدس کےالطور، عناتا، العیزریہ اور ابو دیس‘ شامل تھے۔ سنہ 1997ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع اسحاق مرڈخائی نے مزکورہ سیکٹر ایک مربع کلو میٹر کے علاقے میں ایک کارخانہ قائم کرنے اور صیہونیوں کے لیے 4000 مکانات کی تعمیر کی منظوری دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں پر 10 بڑے ہوٹل بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔
انتہائی خطرناک منصوبہ
فلسطینی تجزیہ نگار خلیل التفکجی نے ’ای ون‘ اسکیم کو القدس کو غرب اردن سے جداکرنے کی خطرناک صیہونی اسکیم قرار دیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’E1‘ اسکیم شروع کرنے کے کئی محرکات ہیں۔ مشرقی بیت المقدس کو چاروں اطراف سے اسرائیلی فوج کے گھیرے میں لینا۔ عناتا، الطور اور حزماÂ کا گھیراؤ کرتے ہوئے مستقبل کی فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنا اہم اسباب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صیہونی ریاست بیت المقدس میں آبادی کا توازن تبدیل کرنے کی سرگرمیوں میں پیش پیش ہے۔
القدس کا گھیراؤ کرنے کے بعد مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے کی مساعی روکنا ہے۔ اس کے علاوہ مشرقی بیت المقدس کو شہر سے باہر قائم کی گئی صیہونی کالونیوں میں ضم کرنا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ صیہونی ریاست القدس کا گھیراؤ کرنے کے بعد ’عظیم تر یروشلم‘ کے منصوبے کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ عظیم تر یروشلم اسکیم میں غرب اردن کے علاقے بھی شامل ہیں اور یہ کل غرب اردن کے 10 فی صد رقبے کے برابر ہے۔
اسرائیلی بلدیہ کے زیرانتظام دیگر صیہونی کالونیوں میں معالیہ ادومیم کالونی بھی شامل ہے جو ’E1‘ اسکیم کی توسیع کا حصہ قرار دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کو القدس میں انتہائی خطرناک منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔
معالیہ ادومیم کا شمارغرب اردن کے اہم ترین تزویراتی مقامات میں ہوتا ہے۔ اسرائیل اس منصوبے کو وادی اردن تک توسیع دینا چاہتا ہے۔ عالمی ماہرین اور مبصرین اسے مشرق وسطیٰ میں امن مساعی میں سب سے بڑی قرار دیتے ہیں۔
غیرآئینی صیہونی کالونیاں
صیہونی ریاست کو غیرقانونیوں کے قیام کی ذمہ دار ریاست قرار دیا جاتا ہے۔ قابض اسرائیل نے فلسطین کے چپے چپے پر غیرقانونی یہودیاں قائم کر رکھی ہیں۔ صیہونی ریاست نے معالیہ ادومیم کے ساتھ ساتھ علمون، کفار ادومیم، الون، کیدار، صنعتی کالونی میشور ادومیم، اور کئی دوسرے نام شامل ہیں۔ ان میں 47 ہزار 500 صیہونیوں کو آباد کیا گیا ہے۔
معالیہ ادومیم آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑی کالونی ہے۔ اس میں آباد کیے گئے آباد کاروں کی تعداد 41 ہزار سے زائد ہے۔ یہ کالونی 50 مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے، جب کہ اس کالونی کی آبادی تل ابیب کی آبادی کا 10 فی صد ہے، تاہم اس میں مسلسل توسیع پسندی کا عمل جاری ہے۔
سنہ 2001ء کے بعد القدس میں صیہونی ریاست 8 ہزار مکانات تعمیر کرچکی ہے۔
معالیہ ادومیم کے قریب فلسطینی بدوؤں کی 18 کالونیاں قائم ہیں جن میں ساڑھے تین ہزار فلسطینی رہائش پذیر ہیں۔ ان میں ایک بڑا فلسطینی قبیلہ ’عرب الجھالین‘ بھی ہے جو سنہ 1950ء سے مشرقی بیت المقدس، وادی اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ان فلسطینیوں کو صیہونی ریاست کی طرف سے جبری شہر بدری کا سامنا ہے۔
اراضی پر غاصبانہ قبضہ
ستمبر سنہ2007ء کو اسرائیلی فوج نے ایک نیا حکم جاری کیا جس میں مشرقی بیت المقدس اور معالیہ ادومیم کے 1128 دونم علاقے پر قبضے کا حکم دیا گیا۔
فلسطینی اراضی غصب کرنے کے لیے ایک سڑک کی تعمیر کا بہانہ رچایا گیا۔ صیہونی فوج کی طرف سے کہا گیا کہ وہ مشرقی بیت المقدس کو غرب اردن کے شمالی اور جنوبی علاقوں کو باہم مربوط کرنے کے لیے ایک نئی شاہراہ تعمیر کررہی ہے۔ حقیقی معنوں میں یہ شاہراہ معالیہ ادومیم کو دوسری صیہونی کالونیوں کو مربوط بنانے کے لیے تعمیر کی گئی۔
شاہراہ کی تعمیر کے لیے فلسطینی شہریوں کی نجی اراضی غصب کی گئی۔ ان میں ابو دیس، السواحرہ، النبی موسیٰ، الخان الاحمر، کے علاقے شامل تھے۔
یہ سڑک فلسطینیوں کے لیے وبال جان اور صیہونیوں کے لیے ایک نئی سہولت ثابت ہوئی۔ اس سڑک کی تعمیر کے بعد فلسطینیوں ہو ’ای ون‘ کے علاقے سے گذرنے کے لیے ’شاہراہ نمبر ایک‘ کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی۔