واشنگٹن (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) ان دنوں امریکا میں سیاسی تبدیلی کا ایک نیا دھماکہ ہوا۔ سیاسی دھماکوں کے حوالے سے مشہور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک وفادار اور ہونہار وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن کو عہدے سے ہٹانے کے بعد ان کی جگہ ’سی آئی اے‘ چیف مائیک پومپیو کو نیا وزیرخارجہ مقرر کیا گیا ہے۔
ریکس ٹیلرسن کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ کچھ امریکا مخالف ممالک کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ جیسا کہ شمالی کوریا اور ایران وغیرہ۔ ریکس ٹیلرسن کی اچانک برطرفی اور مائیک پومپیو کی تعیناتی کو اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں غیرمعمولی کوریج دی گئی ہے۔اسرائیلی اخبار’ہارٹز‘ کے ایک کالم نگار ’حامی شیلف‘ نے نئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو پر روشنی ڈالی ہے۔ فاضل صیہونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ٹیلرسن کی برطرفی اسرائیل کے لیے ایک مثبت پیغام ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل میں اطمینان کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ ٹیلرسن اور نئے وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے درمیان کسی قسم کی قربت یا ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ تاہم پامپیو کی تعیناتی سے امریکی انتظامیہ میں افراتفری پیدا ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیلرسن کی برطرفی پر تل ابیب میں کسی نے آنسو نہیں بہائے۔ وہ اسرائیلیوں کے لیے کوئی زیادہ قابل فخر شخصیت نہیں رہے جب کہ ان کے مقابلے میں مائیک پومپیو اسرائیل کے وفادار دوست ہیں اور ’سی آئی اے‘ چیف کی حیثیت سے بھی وہ اسرائیل کے حامی رہے ہیں۔
دوسری جانب ریکس ٹیلرسن کی برطرفی کا اسرائیل میں جشن ضرور منایا گیا۔ ٹیلرسن ایران کے ساتھ جاری جوہری معاہدے کی توثیق کے لیے پرجوش تھے جب کہ صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ وہ کسی بھی وقت تہران کے ساتھ محاذ آرائی کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔
اسرائیل کا سب سے بڑا حامی
جہاں تک نئے امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کا تعلق ہے تو ان کا ایران اور اسرائیل کے حوالےسے موقف ٹیلرسن سے کافی مختلف ہے۔ وہ ایران سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کے انتہائی وفادار ہیں۔
وزارت خارجہ کے عہدے پر ان کی تعیناتی اس بات کا اشارہ ہے کہ واشنگٹن تہران کے معاملے میں سخت پالیسی اپنانا چاہتا ہے۔ اس کا ثبوت مائیک پومپیو کے بیانات سے بھی ہوتا ہے۔ اپنے ایک بیان میں وہ ایران کے ساتھ ڈیل کو ’المیہ‘ قرار دے چکے ہیں۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 10 کی رپورٹ کے مطابق نئے امریکی وزیرخارجہ پر اسلام فوبیا کا شکار ہونے کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز اور اشتعال انگیز بیانات کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے گوانتانامو قید خانے کو بند کرنے کی سخت مخالفت کی تھی۔ اس کے علاوہ قید کیے گئے شدت پسندوں کو اذیتیں دینے کی بھرپور حمایت کی تھی۔ ان کی زیرنگرانی قیدیوں پر جبرو ستم میں اضافے کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔
وہ ٹرمپ نے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں اور اسرائیل کے پر زور حامی ہیں۔ وہ بار بار ایران کے ساتھ طے پائے معاہدے کو ختم کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔
ان کی خارجہ سیاست سیاہ اور سفید کے گرد بھی گھومتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا ایک ایسی وزارت خارجہ کے سامنے کھڑی ہے جو سفارت کاری، سیاست، نرمی یا لچک کوے مفہوم سے آگاہ نہیں۔ داخلی اور خارجی سیاسی معاملات میں ٹرمپ اور مائیک پومپیو کے درمیان غیرمعمولی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
عبرانی اخبار ’معاریف‘ کے مطابق مائیک پومپیو کی تعیناتی پر اسرائیل میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔
اسرائیلی نائب وزیر خارجہ اور سابق سفیر مائیکل ارون نے ایک بیان میں کہا کہ ’پومپیو اسرائیل کے ساتھ حد درجہ محبت رکھتے ہیں۔ وہ عربوں کے طریقہ کار کو پسند نہیں کرتے۔ یہ تاثر ایران کے مفاد میں ہے۔
سابق اسرائیلی سیکرٹری خارجہ ڈوری گولڈ کا کہنا ہے کہ مائیک پومپیو کی تیعناتی خطرات میں گھرے اسرائیل کے لیے نیک شگون ہے۔ مشرق وسطیٰ کو درپیش خطرات اور ان خطرات سے اسرائیل کو لاحق مشکلات سے پومپیو کو بہ خوبی واقف ہیں۔ وہ ایران کو خطے کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایران کو ہر صورت میں دیوار سے لگانا اور اسرائیل کو تمام خطرات سے بچانا ہوگا۔
ایک بیان میں مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ایک ہزار فضائی حملوں کے نتیجے میں ایران کی جوہری صلاحیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنا امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے ناممکن نہیں۔ ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لیے یہ سب کچھ کرنا پڑ سکتا ہے۔
جیوش ڈیموکریٹک الائنس کے چیئرمین میٹ برکس کہتے ہیں کہ مائیک پومپیو امریکا میں یہودیوں کے سب سے مخلص دوست ہیں۔ وہ اسرائیل کے بہت قریب اور ایران کے دشمن ہیں۔ وہ اسرائیلی مفادات کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں بھی ان پر بجا طور پر فخر ہے۔
مائیک پومپیو نے فروری 2017ء کو فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس وقت وہ ’سی آئی اے‘ کے چیف تھے۔ قبل ازیں سنہ 2015ء میں امریکی ارکان کانگیرس کے ہمراہ بیت المقدس کا بھی دورہ کیا۔ اسرائیلی دورے کے دوران انہوں نے بنجمن نیتن یاھو سے بھی ملاقات کی اور کہا کہ نیتن یاھو امریکیوں کے حقیقی دوست ہیں۔
مائیک پومپیو کون
ٹرمپ نے گذشتہ منگل کو ’ٹویٹر‘ پر پوسٹ میں ریکس ٹیلرسن کو چلتا کیا اور ان کہ جگہ مائیک پومپیو کو نیا وزیرخارجہ مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے لکھا کہ میں مائیک پومپیو ایک ہی طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔
مائیک پومپیو جنوبی کلیفورنیا میں پیپدا ہوئے۔ سنہہ 1986ء میں انہوں نے ویسٹ بوینٹ میں امریکی ملٹری میں شامل ہوئے۔ قبل ازیں وہ انجینیرنگ کے شعبے میں ڈگری لے چکے تھے۔
فوج میں شمولیت کے بعد مائیک پومپیو تیزی کے ساتھ ترقی کرتے اہم حکومتی، سیاسی اورعسکری عہدوں پر کام کرتے رہے۔ انہوں نے پانچ سال ملٹری اکیڈمی میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد وہ ہارود رائیٹس کالج سے وابستہ ہوگئے۔
اس دوران انہوں نے کنساس میں ویچشیٹا کے مقام پر انجینیرنگ کمپنی کی بھی بنیاد رکھی۔ وہ اپنی کمپنی سے آئل کی صنعت سے وابستہ دو ارب پتی بنیاد پرست بھائیوں سے بھی مدد لیتے رہے۔ ملٹری اکیڈیمی میں وہ انٹیلی جنس کے شعبے سے منسلک ہوئے جہاں سی آئی اے میں کنٹرولر کے عہدے پر کام شروع کردیا۔
سنہ 2012ء میں ان کا نام اس وقت مشہور ہوا لیبیا کے بنغازی شہر میں امریکی سفیر اور تین امریکیوں کو قتل کر دیا گیا۔
انہوں نے سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن پر چاروں امریکیوں کے قتل میں ذمہ دار ہونے کا الزام عائد کیا۔
سی آئی اے نے پومپیو کو ایجنسی کے ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے منتخب کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سفیر اور تین دیگر امریکیوں کے قاتلوں کو بے رحمی سے پکڑنا یا مارنا ہوگا۔
قصہ مختصر ٹرمپ کو مائیک پومپیو پر اندھا اعتماد اس لیے کہ وہ ایران اور اسرائیل کے حوالے سے ٹرمپ کی پالیسیوںÂ میں رنگ بھرنے میں ان کے دست راست سمجھے جاتے ہیں۔