غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم منگل کے روز غیراعلانیہ دورے پر غزہ کی پٹی کے علاقے میں داخل ہوئے۔ ان کی اچانک آمد اور ان کے قافلے کے گذرنے جانے کے بعد ان کے راستے میں ہونے والے دھماکے نے کئی طرح کے سوالات کو جنم دے دیا ہے۔
منگل کے روز فلسطینی وزیراعظم رامی الحمد اللہ اور فلسطینی انٹیلی جنس چیف ماجد فرج غزہ کی پٹی کے دورے پر آئے۔ اگرچہ ان کا قیام چند گھنٹے کے لیے تھا مگرایک واقعے نے ان کے اس دورے کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات کو بھی جنم دے دیا ہے۔غزہ کی پٹی میں وزیراعظم رامی الحمد اللہ کے قافلے کے بعد ان کے راستے میں ہونے والا دھماکہ فلسطینی سیاسی حلقوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ رامی الحمد اللہ کے قافلے پرحملہ کس نے کیا اس کے حوالے ابھی تک کوئی مصدقہ رپورٹ سامنے نہیں آسکی تاہم یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے’صدی کی ڈیل‘ کی خبریں تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ رامی الحمد اللہ کے قافلے پر حملے سے کس کو سب سے زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔
حماس پر الزام
رامی الحمد اللہ کے اچانک دورہ غزہ، ان کے قافلے پرحملہ اور اس کے بعد عجلت میں تیزی کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے جاری ہونے والا بیان کئی طرح کے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عجلت میں بغیر تحقیق کے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ رامی الحمد اللہ کے قافلے پر حملہ حماس کی جانب سے کرایا گیا۔ حماس نے فلسطینی اتھارٹی کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عاجلانہ انداز میں بیان بازی اور حماس پر الزام تراشی ایک طے شدہ منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار زاھر البیراوی نے کہا کہ غزہ میں رامی الحمد اللہ کے قافلے پر حملے میں حماس کو قصور وار قرار دینا انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے طے شدہ منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ رامی الحمد اللہ کے قافلے میں دھماکہ اسرائیل یا فلسطینی اتھارٹی کے کارندوں نے خود کیا ہے تاکہ اس کا الزام حماس پر عائد کرکے حماس کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا جاسکے۔
البیراوی کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 11 سال سے غزہ کی پٹی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے ان پابندیوں کو مزید سخت کرنے میں اسرائیل کی مدد کی ہے۔ فلسطینی جماعتوں کے درمیان مصر کی مساعی سے ہونے والی مفاہمتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے کوئی کسراٹھا نہیں رکھی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ پابندیوں کے باوجود غزہ میں حماس نے جس طرح امن وامان قائم رکھا یہ اس کی کامیابی کی علامت ہے۔
جہاں تک رامی الحمد اللہ کے قافلے پر حملے کا تعلق ہے تو وہ قابل مذمت ہے۔ چاہے ان کے قافلے پر حملے کا واقعہ حقیقی ہو یا فلمی ایکشن کی طرز پرطے شدہ اقدام ہو غزہ کی پٹی کو شیطانی علاقہ قرار دینے اور غزہ کی پٹی پر پابندیوں کو طول دینے کی کوشش ہے۔
دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش
فلسطینی تجزیہ نگار علاء الریماوی نے کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں وزیراعظم رامی الحمد اللہ کے قافلے پر ہونے والے حملے کو باریکی کے ساتھ دیکھ رہا ہے ۔ اسرائیل پہلے ہی دنیا کو یہ باور کوشش کررہا ہے کہ غزہ کی پٹی فلسطینی مزاحمت کاروں کا گڑھ اور دہشت گردی کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ واقعے کو اسرائیل عالمی دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی مذموم اور مجرمانہ کوشش کرے گا۔
الریماوی کا کہنا ہے کہ فلسطینی وزیراعظم رامی الحمد اللہ کے قافلے پر دھماکہ ایک طے شدہ کارروائی لگتی ہے۔غور سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان پر قاتلانہ حملہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے انتہا پسندی کے پردے میں اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کا ہاتھ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حماس پر اس واقعے میں ملوث ہونے کا الزام بلا جواز ہے۔ حماس پر الزام عائد کرکے غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ کی راہ ہموار کرنا اور صیہونی ریاست کے ساتھ مل کر غزہ کی پٹی میں مشترکہ کارروائی کی کوششیں کرنا ہے۔