مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہزاروں فلسطینیوں میں سے بعض عشروں سے قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ انہی میں ایک نام اسیر ابراہیم ابو مخ کا ہے۔
ابراہیم ابو مخ 31 سال سے صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ رپورٹ میں ابو مخ کے حالات زندگی اور اسیری پر روشنی ڈالی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ابو مخ پچپین ہی سے مضبوط عزم اور ارادے کے مالک ہیں۔ وہ اپنے عزم کی طرح بچپن ہی سے اپنی جسمانی طاقت کے اظہار کے شوقین تھے۔ ان کے والدین دونوں ان کے ہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان سے جدا ہوگئے۔ ابراہیم ابو مخ اور ان کی ایک ہمشیرہ پسماندگان میں شامل رہیں۔ انہوں نےÂ مشکل ترین حالات کے باوجود ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اندرون فلسطین باقہ شہر میں ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔چونکہ ابومخ کے والدین بچپن میں انتقال کرگئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کی کفالت کی ذمہ داری بھی ابراہیم ابو مخ پرعائد ہوگئی۔
ہمشیرہ کی تعلیم اور اس کی کفالت کے لیے ابو مخ کو بڑھئی کا پیشہ اپنانے پرمجبور ہونا پڑا۔ اپنے چھوٹے سے گھر میں انہوں نے صبرو رضا کے ساتھ کام جاری رکھا۔
لڑکپن کا فدائی
ایک فلسطینی ہونے کے ناطے ابو مُخ کو قضیہ فلسطین کے ساتھ بھی گہری دلچسپی رہی اور وہ بچپن ہی سے النکبہ اور النکسہ سے متعلق کتب کا شوق سے مطالعہ کرتے۔ کتب کے مطالعے ابو مخ میں تحریک آزادی فلسطین کے ساتھ وابستگی اور وطن سے محبت میں اضافے کے ساتھ مزاحمت اور دشمن کے خلاف جدو جہد کے جذبات میں اضافہ کردیا۔ ابو مخ فلسطین کے تمام علاقوں بالخصوص غزہ کی پٹی اور غرب اردن کے علاقوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی صیہونی سازشوں کے خلاف سرگرم ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن ہی سے فدائی اور مزاحمت کار کے طورپر مشہور ہوئے۔ سنہ 1985ء کے اوائل میں انہوں نے شمالی فلسطینی شہر نتانیا میں ایک اسرائیلی فوجی موشے تمام کو جہنم واصل کرکے مسلح مزاحمت کا آغاز کردیا۔
اسرائیلی فوجی کے قتل کا یہ واقعہ پراسرار رہا اور اسرائیلی فوجÂ اور انٹیلی جنس ادارے حملہ آور کی تلاشÂ کرتے رہے۔ بالآخر انہوں نےابو مخ کو اس کارروائی کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔
گرفتاری اور تشدد
یہ 24 مارچ 1986ء کی صبح کا واقعہ ہے جب ابو مخ مغربی الرقہ میں اپنے گھر پر موجود تھے۔ ان کے گھر کو اسرائیلی فوج کی بھاری نفری نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ صیہونی فوجی گھر میں داخل ہوگئے، گھر میں گھس کر تفتیش شروع کی اور توڑپھوڑ کے بعد انہیں ابو مخ کو حراست میں لے لیا۔
حراست میں لیے جانے کے بعدÂ انہیں حراست میں لینے کے بعد انہیں مسلسل چھ ماہ تک پابند سلاسل رکھا گیا اور اس دوران وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ دوران حراست ایسا تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس کے اثرات آج بھی اس کے جسم پرموجود ہیں۔
چھ ماہ تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد ولید ابو دقہ اور رشدی ابو مخ ابراہیم بادستہ پر موشے تمام کے قتل کا الزام عائد کیا اوران پر تنظیم آزادی فلسطین سے تعلق کا الزام عائد کیا۔
صیہونی حکام نے ابو مُخ پراسی الزام کے تحت عدالت میں مقدمہ چلایا اور تا حیات عمر قید کی سزا سنا دی۔ فلسطینی مزاحمت کاروں نے ابو مخ کا نام اپنے مطالبات کی فہرست میں شامل کیا مگرصیہونی ریاست ہربار ان کے نام کو خارج کردیتی تھی۔
بار بار کی ہٹ دھرمی اورپابند سلاسل رکھنے کے باوجود ابو مخ رہائی کی اُمید ترک نہیں کی بلکہ آج بھی زندہ رہائی کی امید زندہ ہے۔