تحریر: محمد مکرم البعاوی
حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ فلسطینی علاقے رام اللہ کا دورہ کیا اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے ملاقات کی۔ ان کا دورہ رام اللہ فلسطین کے حوالے سے بھارت کی روایتی پالیسی کا حصہ ہے اور اسے بھارت کی فلسطین بارے سیاسی پالیسی کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے۔مودی پہلے بھارتی وزیراعظم نہیں جنہوں نے فلسطین کا دورہ کیاہے۔ اس سے پیشتر سنہ 1960ء میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو بھی فلسطین کا دورہ کرچکے ہیں۔ نہرو نے اپنے دورے کے دوران فلسطین میں بھارتی جنرل آر ایس گاینی کی زیرقیادت اقوام متحدہ کی ہنگامی فورس ’UNEC‘ کی ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔
اس وقت غزہ کی پٹی کا علاقہ مصر کے زیرانتظام تھا۔ نہرو نے غزہ کی پٹی کا دورہ کیا تو اسرائیلی جنگی طیاروں نے ان کے ہوائی جہاز کا تعاقب کیا۔ بعد ازاں بھارتی لوک سبھا میں اظہار خیال کرتے ہوئے نہرو نے بتایا تھا کہ کس طرح اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے ان کے سول جہاز کا پیچھا کیا اور وہ اسرائیل کے قاتلانہ حملے سے بچے تھے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کےدرمیان تعلقات طویل عرصے تک نمائشی اور سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات مئی 1991ء کو راجیو گاندھی کی خود کش حملے میں موت کے بعد کیا۔ بھارتی کانگریس پارٹی اسرائیل کے تعلقات کے فروغ میں گرم جوشی کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں رہی۔ حال ہی میں جب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے بھارت کا دورہ کیا کانگریسی لیڈر راھول گاندھی نے نیتن یاھو سے ملنے سے انکار کردیا تھا۔
بھارت ۔ اسرائیل تعلقات
بھارت کی موجودہ حقیقت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو حقیقت پسندی کے نقطہ نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نیتن یاھو کا نئی دہی کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان فروغ پذیر تعلقات کے سیاق کا حصہ ہے۔ تل ابیب اور نئی دہلی کے درمیان پائی جانے والی سرد مہری تیزی کے ساتھ گرم جوشی میں تبدیل ہو رہی ہے۔ چھ ماہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندرمودی بھی اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔
تاہم سنہ 2015ء کوجب سابق بھارتی صدر پرناب مکھرجی اور بھارتی سفارت کاروں نے تل ابیب کا دورہ کیاتو اس وقت نریندرمودی نے اسے کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی۔ وہ تل ابیب کے بعد رام اللہ کے دورے پربھی گئے۔ یہ اس بات کا علامتی اظہار تھا کہ اسرائیل کے ساتھ بھارتی مفادات کے فروغ کے ساتھ ساتھ نئی دہلی فلسطینیوں کو بھی ساتھ ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی حمایت کرتی ہے۔ حال ہی میں جب اسرائیلی وزیراعظم دہلی آئے تو اس پر بھارتی میڈیا میں’راستہ جدا‘ کے عنوانات سے رپورٹس شائع کیں تو اس تاثرکو زائل کرنے کے لیے مودی کو اردن کے راستے عمان کے راستے رام اللہ کا درشن کرنا پڑا۔
فلسطینیوں کو احساس ہے کہ سوویت یونین کے سقوط کے بعد بھارت غیر جانب دار تحریک کا موثر بانی رکن رہا ہے۔ اس تحریک کے قیام کے بعد بھارت کی خارجہ پالیسی میں جوہری تبدیلیاں آئیں۔ اب بھارت کی زیادہ توجہ علاقائی سطح پر اپنا اثرو نفوذ بڑھانے اور اقتصادی ترقی پر مرکوز ہے۔ جہاں تک عالمی امور بالخصوص مشرق وسطیٰ کے مسائل میں بھارت کا کردار ہے تو وہ پہلے تو نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر کچھ ہے بھی تو اس پر بھی امریکا کی اجارہ داری ہے۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت مشرق وسطیٰ کے مسائل کے حل میں امریکا کی صف میں رہے گا۔
حال ہی میں جب فلسطینیوں اور امریکا کےدرمیان بحران پیدا ہوا تو فلسطینیوں کو ایک بار پھر یہ اندازہ ہوا کہ بھارت کلی طورپر فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت سے دست بردار نہیں ہوا۔ اگر فلسطینی بھارت سے تعلقات میں کمی کرتے ہیں تو اس کا فائدہ اسرائیل کو ہوگا اور بھارت مزید اسرائیل کی طرف جھک جائے گا۔ اس لیے فلسطینیوں نے بھارت کےساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کی پالیسی اپنائی ہے۔
بھارت کا مسئلہ فلسطین کے حل سے متعلق نکتہ نظر پرامن تصفیے پر یقین تک محدود ہے۔ بھارت فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدوں کا پرزو حامی ہے۔ بھارت بھی فلسطین کو تقسیم کرکے دو ریاستوں اسرائیل اور فلسطین میں تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ موقف کوئی اچھوتا تخیل نہیں بلکہ یورپی ممالک اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک جن میں مسلمان اور عرب ملک بھی شامل ہیں تنازع فلسطین کے ’دو ریاستی حل‘ کےپرزور حامی ہے۔
حال ہی میں جب نیتن یاھو بھارت کے دور پرآئے تو اس موقع پر مودی اور نیتن یاھو نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں دونوں رہ نماؤں نے باہمی امن بات چیت کو بڑھانے سے اتفاق کیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت لا محالہ اسرائیل ہی کی طرف جھکاؤ رکھے گا کیونکہ محمود عباس کے پاس نئی دہلی کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔
اس حقیقت کا اعتراف بھارتی ذرائع ابلاغ بھی کررہے ہیں۔ بھارتی صحافیہ سیما مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں اور بھارت کے درمیان عرصے سے تعلقات قائم نہیں۔ بھارت کا صاف جھکاؤ اسرائیل کی جانب ہے۔
ممکن ہے کہ نمائشی طورپر بھارت فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے مگر نئی دہلی کی طرف سے فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد میں کمی آسکتی ہے۔ اس کے بدلے میں بھارتی تعلیمی اداروں میں فلسطینی طلباء کی اسکالرشپ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
بھارت فلسطینی پناہ گزینوں کی امدادی ادارے’اونراو‘ کو سالانہ پونےدو ملین ڈالر کی امداد فراہم کرتا ہے۔ اس پر فلسطینیوں کو بھارت کا شکر گذار ہونا چاہیے۔ مگر دوسری طرف بھارت اور اسرائیل کے درمیان دوطرفہ تجارتی حجم پانچ ارب امریکی ڈالر سےمتجاوز ہو رہا ہے۔
بھارت کے لیے فلسطین کی اہمیت
بھارت اور فلسطین کے درمیان تعلقات کے موضوع پر بات کرتے ہوئے ایک آئینی سوال ذہن میں ابھرتا ہے۔ وہ یہ کہ بھارت فلسطینیوں کے لیے کتنا اور کیوں اہم ہوسکتا ہے؟ْ۔ بھارت آبادی کے اعتبار سے ایک بڑا ملک ہے اور بڑی عالمی معاشی طاقت ہے۔ جب کہ فلسطین آبادی کے اعتبار سے بھی چھوٹا ملک، خود مختاری سے محروم اور آزادی اور خود مختاری سے محروم ملک ہے جس کی اپنی کوئی آزاد حیثیت نہیں۔
فلسطینیوں حیثیت کےباوجود بھارت فلسطینیوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی توازن پرقائم ہیں اور کانگریس کے دور میں فلسطین کے حوالے سے بھارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
میرے خیال میں فلسطین اور بھارت کے درمیان تعلقات متاثر ہونے کے باعث قضیہ فلسطین کے لیے بھارت کی حمایت متاثر ہونے کے بھی خطرات ہیں۔ اسرائیل کی طرف داری کے ممکنہ خطرات درج ذیل ہوسکتے ہیں۔
1۔ بھارت افریقی ممالک بالخصوص جنوبی افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دے رہا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو استعماری نوآبادیاتی نظام سے متاثر رہے ہیں۔ بھارت بھی ’بریکس‘ تنظیم کا سرگرم رکن ہے اور یہ تنظیم استعمار مخالف گروپ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ یوں یہ امکان موجود ہے کہ بھارت فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھنے والے ملکوں کہ فہرست میں موجود رہے گا۔
2۔ فلسطینیوں کی بھارتی حمایت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت عرب ممالک کوپاکستان کے قریب آنے سے روکنے کےلیے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے گا۔
3۔ بھات عرب ممالک کے ساتھ اپنے وسیع تر تجارتی روابط کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ بالخصوص خلیجی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔
4۔ عرب خطے پر چین کے بڑھتے اثرو نفوذ کا مقابلہ کرنا۔
5۔ عرب خطے بالخصوص فلسطین میں امن واستحکام بھارت کی گہری خواہش ہے۔ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات تجارت میں اضافے اور تیل کی قیمتوں پر بھی مثبت اثرات مرتب کریں گے اور بھارت عرب ممالک کا ایک بڑا گاہک بھی برقرار رہے گا۔
دوسری جانب بھارت اور فلسطین کے درمیان تعلقات کے متاثرہ ہونے کے تحت فلسطین کوخطرات کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔
یہ خطرات درج ذیل ہوسکتے ہیں۔
فلسطینیوں کے ساتھ بھارت کی قربت کی ایک وجہ یہ ہے کہ نئی دہلی یہ ظاہر کرناچاہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دشمنی نہیں رکھتا۔
بھارت کو اندازہ ہے کہ گر اس نے مسلمان ممالک بالخصوص فلسطین کے معاملے میں غیرضروری اسرائیلی طرف داری کی تو عرب اور مسلمان ملکوں میں موجود جہادی عناصر بھارت کے خلاف سرگرم ہوسکتے ہیں اور عرب اور مسلمان ممالک کے بھارت میں سرمایہ کاری کو متاثر کرسکتے ہیں۔