جنین (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) ایک ماہ پیشتر فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین میں ’حفات گیلاد‘ صیہونی کالونی میں ایک یہودی ربی کے قتل کے واقعے کے بعد اسرائیلی فوج نے اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے کمانڈر احمد نصر جرار کا تعاقب شروع کردیا۔
دوسری جانب صیہونی فوج ایک انہونے خوف اور ڈرائنے خواب کا بھی شکار تھی، کیونکہ احمد نصر جرار نے صیہونی فوج کو ناکوں چنے چبوانے کا جرات مندانہ عزم کر رکھا تھا۔ صیہونی فوج کے وحشیانہ کریک ڈاؤن کے علی الرغم فلسطینی مجاھد دشمن کی ہبیت اور خوف کا حصار توڑنے میں کامیاب رہے۔ایک ماہ قبل نو جنوری کو جب نصر جرار نے یہودی ربی ازرائیل شیفح کو جہنم واصل کیا تو صیہونی ریاست غصے سے پاگل ہوگئی تھی۔ صیہونی دشمن نے فلسطینی مجاھد حملہ آور کی شناخت تو کرلی تھی مگر مسلسل ایک ماہ کی طویل تلاش کے بعد وہ اس کے ٹھکانے کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ایک ماہ کا عرصہ صیہونی دشمن کے لیے بھی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا۔
صیہونی فوج کی تین ناکام کارروائیاں
ایک ہفتے تک اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس ادارے یہودی ربی کے قتل کے ذمہ دار فلسطینی سیل کی نشاندہی میں ناکام رہے۔ صیہونی انٹیلی جنس حکام دن رات اس کوشش میں تھے کہ یہودی ربی کے قتل میں ملوث فلسطینی مزاحمت کاروں کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس بار جو طریقہ اختیار کیا تھا وہ اسرائیلی فوج کے لیے بھی حیران کن اور چونکا دینے والا تھا۔ جب صیہونی فوج احمد جرار سیل کی نشاندہی میں کامیاب رہی تو اس کے بعد بھی مزاحمت کاروں کی تلاش صیہونی فوج کے لیے ایک سنگین چیلنج ثابت ہوئی۔ یہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی تبدیل ہوتی حکمت عملی کا ثبوت اور دشمنی کی ناکامی کی واضح مثال تھی۔
صیہونی فوج نے فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد سیکیورٹی اداروں کی معاونت سے کارروائی کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی کی نشاندہی کی۔ اس گاڑی کی مدد سے القسام بریگیڈ کے کمانڈر احمد نصر جرار شہید کی نشاندہی کی گئی۔ صیہونی فوج نے اس کے بعد احمد جرار کی تلاش شروع کی مگر اس میں بھی کئی روز لگ گئے۔ صیہونی فوج پر یہ تیسری کاری ضرب تھی۔
صیہونی دشمن کو تیسری ضرب سترہ جنوری اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں، الیمام اور گیواتی جیسی ایلیٹ یونٹوںÂ کے کمانڈوز نے جنین میں احمد جرار کو گرفتار کرنے کے لیے اس کے آبائی قصبے پر یلغار کی، احمد نصر جرار صیہونی دشمن کی اس یلغار کے اندر سے چپکے سے نکل جانے میں کامیاب رہے۔
صیہونی فوج نے احمد نصر جرار کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لیے ’پریشر کُکر’ نام سے آپریشن شروع کیا۔ اسی عرصے میں احمد جرار کے ایک چچا زاد صیہونی فوجی افسر کو شدید زخمی کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ اس واقعے نے صیہونی حکام کو اس بات کی یقین دہانی کرادی کہ یہودی ربی کے قتل میں احمد نصر جرار ہی ملوث ہیں۔
جرات اور بہادری
احمد نصر جرار کی گرفتاری کے حوالے سے اسرائیلی فوج کے متعدد آپریشنز کو اسرائیلی میڈیا کی طرف سے بھرپور کوریج دی گئی۔ عبرانی اخبار’یسرائیل ھیوم‘ نے لکھا کہ احمد نصر جرار مسلسل بہادری اور جرات کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ایک یہودی ربی کو قتل کرنے بعد صیہونی انٹیلی جنس اور فوج کو پکڑائی نہ دے کر وہ فلسطینیوں کے ہیرو بن گئے ہیں۔ وہ جس بہادری، راز داری اور کامیاب عسکری کارروائی کے بعد جائے وقوعہ سے باہر گئے ہیں وہ صیہونی انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
اخبار نے لکھا کہ فلسطینی نوجوان نسل ایسے نوجوانوں کو ہیرو کا درجہ دیتی ہے جو اسرائیلی فوج کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو۔ احمد نصر جرار مسلسل ایک ماہ تک اپنے تعاقب کے باوجود صیہونی دشمن کو دھوکہ دیتے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب رہے۔
عبرانی اخبار نےÂ اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس اداروں پر تنقید کی اور لکھا کہ حقیقی معنوں میں احمد نصر جرار نے صیہونی فوج اور انٹیلی جنس اداروں پر غلبہ پالیا ہے۔ اگرچہ جنگی وسائل کے اعتبار سے اسرائیلی فوج کو فوقیت حاصل ہے مگر احمد نصر جرار نے اپنے دماغ سے صیہونی شہ دماغوں کو چکرا کررکھ دیا ہے۔
نصر ابن نصر
اسرائیلی امور کے تجزیہ نگار عدنان ابو عامر نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ‘فیس بک ‘ پر پوسٹ ایک بیان میں کہا کہ احمد نصر جرار کی شہادت پراسرائیلی ریاست، صیہونی میڈیا اور سیکیورٹی ادارے کو اپنی فتح اور کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ کیا یہ صیہونی ریاست کی فتح ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ایک ماہ تک ایک فلسطینی مزاحمت کا مسلسل تعاقب کرنے کے باوجود اسے تلاش کرنے میں ناکامی نے صیہونی دشمن کی انٹیلی جنس صلاحیت کے کھوکھلے پن کا پول کھول دیا۔ صیہونی ریاست کو احمد نصر جرار کو ایسے تلاش کرنا پڑا جیسا کہ ایک پہاڑ کھود کر سوئی تلاش کرنا تھی۔