رام اللہ ( فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات ) کسی زندہ انسان کا قبر جیسے تنگ وتاریک گڑھے میں چند لمحات گذارنا بھی قیامت سے کم نہیں ہوتا مگر ایک زندہ فلسطینی مسلسل 32 سال سے اس ناقابل بیان آزمائش سے دوچار ہے جسے صیہونی ریاست کی زندانوں میں ایک سے دوسرے گڑھے میں منتقل کیا جاتا ہے۔
مسلسل بتیس برسوں سے صیہونی زندانوں کی کال کوٹھڑیوں میں زندگی بسرکرنے والے 58 سالہ سمیر ابراہیم ابو نعمہ کے ایک قریبی عزیز نے کہا کہ ‘آپ کو میرا بھائی کیسے یاد آگیا۔ اس موقع پرآپ اس کے بارے میں کیوں کچھ لکھنا چاہتے ہیں۔ اب تک اس کے حوالے سے بہت کچھ لکھا، بولا اور کہا جا چکا ہے۔Â پابند سلاسل سمیر ابراہیم ابو نعمہ کے بارے میں بہت کچھ لکھنے اور کہنے کے باوجود اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔سمیر ابراہیم محمود ابو نعمہ کا تعلق مقبوضہ بیت المقدس کی الشیخ جراح کالونی سے ہے۔ ابو نعمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ فلسطین کے سب سے پرانے اسیران میں شامل ہیں۔
جدو جہد کا سفر
سمیر ابو نعمہ کے بھائی وائل ابو نعمہ نے کہا کہ اس کے بھائی دیگر نوجوانوں کی طرح ایک نوجوان ہی تھے۔ اس وقت اس کی عمر صرف سولہ سال تھی اور وہ میٹرک میں تھا۔ اس نے ہوٹل ایڈمنسٹریشن کے شعبے کا انتخاب کیا اور اپنے پسندیدہ مضمون میں بہترین کارکردگی کے تحت تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی اسیران کے بہت سے اہل خانہ ابو نعمہ خاندان سے واقف نہیں تھے۔ ابو نعمہ کے اہل خانہ کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا کس تنظیم کے ساتھ ہے اور اس کی کس نوعیت کی مزاحمتی سرگرمیاں ہیں۔
بیس اکتوبر1986ء کو ابو نعمہ کو اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا۔ دو ماہ تک اسے اسرائیلی جیل میں رکھا گیا جہاں عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی اور اسے ’ریمون‘ جیل میں ڈال دیا گیا۔
ابو نعمہ کے اہل خانہ کو معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا ایک جرات مندا فدائیÂ جہد کا رہے۔ اس نے کئی فدائی کارروائیوں میں صییہونی دشمن کو غیرمعمولی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ اس نے ایک اسرائیلی فوجی کو چھرا گھونپا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا۔ اس کے علاوہ اس نے یافا شہر میں ایک اسرائیلی بس میں دھماکہ کیا اور متعدد صیہونیوں کو زخمی کیا گیا۔
خرابی صحت کا معاملہ
اسیر ابو نعمہ کے بھائی وائل ابو نعمہ نے کہا کہ اس کے اسیر بھائی طویل اسیری کے دوران کئی مہلک امراض کا شکار ہوئے۔ دیگر مریض فلسطینی اسیران کی طرح ابو نعمہ کو بھی ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت طبی سہولیات اور علاج سے محروم رکھا گیا۔
عسقلان جیل میں قیدیوں کیÂ نگرانی پرمامور ڈاکٹر نے دانستہ طورپر ابو نعمہ کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔
وائل نے بتایا کہ انہوں نے کوشش کی کہ وہ عسقلان جیل کے اسرئیلی ڈاکٹر پر انحصار کے بجائے کوئی دوسرا پرائیویٹ ڈاکٹر اس کے معائنے کے لیے بھیجیں مگرابھی تک انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
ابو نعمہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسیر گردن کے پٹھوں کے تناؤ کا شکار ہے جس کے نتیجے میں اس کے مفاصل متاثر ہو رہے ہیں اور اس کے پورے جسم میں شدید تکلیف ہے۔ اس کے پاؤں میں بھی شدید تکلیف ہے اور وہ زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا۔
بیٹے کی جدائی نے ماں کی جان لے لی
شدید سردی کے موسم میں اسیر ابو نعمہ کی مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اہل خانہ کی طرف سے فراہم کردہ گرم کپڑے تک اسے نہیں پہنچائے جاتے۔ دانتوں میں مستقل تکلیف الگ سے جاری ہے۔
ابو نعمہ کو دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ مسلسل ایک سے دوسرے زندان میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اس نے اسیری کے کئی سال عسقلان عقوبت خانے میں گذارے۔
اسیر کی معمر ماں اپنے بیٹے کی رہائی کی امید لیے زندگی کی سانسیں پوری کرتی رہیں۔ اسے توقع تھی کہ فلسطینی تھارٹی اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اس کے بیٹے کی رہائی کی راہ ہموار ہوگی مگر مذاکرات معطل ہونے کے بعد اس کی ماں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اس کی آنکھیں بیٹے کے دیدار کو ترستی رہیÂ اور وہ اسی انتظار میں دنیا سے چلی گئیں۔