فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مقامی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان انتہائی پیچیدہ موضوع ہے۔ فلسطینیوں کے موجودہ حالات کے مطابق ایسے کسی بھی فیصلے پرعمل درآمد قریبا نا ممکن ہے۔
سیاسی طورپر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لینے کے فلسطینیوں پر غیر مسبوق خطرناک نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔
تجزیہ نگار اور سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر سمیح شبیب نے کہا کہ اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اقدام معطل کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب سنہ 1993ء میں ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے’اوسلو‘ معاہدے کو منسوخ کرنا اور اس کے بعد اس معاہدے کی روشنی میں طے پائے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دینا ہے۔ ایسی صورت میں فلسطینیوں کو سخت ترین انتقامی اقدامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو خلاف قانون اور ایک دہشت گرد انتظامیہ قرار دے سکتا ہے۔ اس کے اگلے مرحلے میں غرب اردن میں اسرائیل کو فلسطینی اتھارٹی کے خلاف فوجی کارروائی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں غرب اردن کا علاقہ میدان جنگ بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر شبیب کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں فلسطینی اتھارٹی کو عرب ممالک کی طرف سے بھی برائے نام امداد مل رہی ہے۔ اسرائیل کے خلاف کسی بھی اقدام کے بعد فلسطینی سیاسی طور پرتنہا ہوسکتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی بہ خوبی جانتی ہے کہ صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات ختم کرنے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان واپس لینے کانتیجہ خطرناک لڑائی بھی ہوسکتی ہے۔
متبادل آپشن، عرب اور عالمی امداد کا سہارا
تجزیہ نگار حافظ البرغوثی نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اقدام واپس لینے کا اعلان کچھ متبادل اپشن مانگتا ہے۔ فلسطینیوں کو اسرائیل کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہنے کے لیے عرب اور عالمی سطح پر بھرپور مالی امداد کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اسرائیل فلسطین کی ہر چیز پر قابض ہے مگر اسرائیل کی طرف سے حاصل ہونے والے ریونیو کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
خیال رہےکہ پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان سنہ 1993ء میں اوسلو معاہدہ طے پایا جس میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے آئینی وجود کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد دونوں میں کئی اور سمجھوتے بھی طے پائے جن میں پیرس کا اقتصادی معاہدہ خاص طور پر شامل ہے۔ اس معاہدے کے تحت ٹیکسوں کی مد میں جمع ہونے والی ایک بڑی رقم اسرائیل فلسطینیوں کو ادا کرنے کا پابند ہے۔
اسرائیل پر معاشی انحصار ختم کرنا
تجزیہ نگار اور اقتصادی امور کے ماہر محمد عبداللہ نے کہا کہ موجودہ حالات میں فلسطینی اتھارٹی کے ادارے اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ فلسطینیوں کے کسٹم امور پر اسرائیل کاکنٹرول ہے۔ فلسطین کی تمام تجارتی گذرگاہوں پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ اسرائیل سے تعلقات توڑنے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ فلسطینی اسرائیل پر معاشی انحصار سے مکمل طور پر بے نیاز ہوگئے ہیں۔
اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ فلسطینی علاقوں کو پہنچنے والا ایندھن، گھروں میں استعمال ہونے والی گیس، بجلی، پانی، گندم، آٹا سب اسرائیل سے ہو کر آتا ہے۔ غرب اردن اور غزہ کی گذرگاہوں پر فلسطینیوں کا کوئی عمل درخل نہیں۔ اندرون اور بیرون تجارتی آمد روفت اوراس پر ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہونے والی رقم اسرائیل جمع کرتا ہے۔ یہ تمام اسباب فلسطینی اتھارٹی کو دستیاب حالات میں اسرائیل کی معاشی اہمیت سے بے نیاز نہیں کرسکتے۔
عبداللہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی اپنی کوئی کرنسی نہیں۔ انہیں اسرائیل کرنسی’شیکل‘ ہی میں لین دینا کرنا اور اسرائیل کے مرکزی بنک کا پابند رہنا ہے۔ محدود پیمانے پر اردنی دینار اور امریکی ڈالر بھی چلتا ہے۔ اسرائیل بیرون ملک سے منگوائی جانے والی مصنوعات فلسطینیوں کے لیے روک سکتا ہے۔ اسرائیل کے اندر سے اشیاء کی اسمگلنگ بھی فلسطینیوں کے لیے آسان نہیں۔
تجزیہ نگار حافط البرغوثی کا کہنا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ فلسطینیوں کے پاس اسرائیل کے خلاف مشکل فیصلے کرنے بالخصوص صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان واپس لینے، اسرائیل کےزیرتسلط فلسطینی ریاست کے اعلان اور اس کے انتظام وانصرام کی کتنی صلاحیت ہے۔ ایسا تبھی ہوسکتا ہے جب عالمی برادری، مسلمان ممالک اور عرب دنیا فلسطینیوں کو اسرائیل سے معاشی طورپر آزاد کردیں۔