عبرانی ویب پورٹل ’’وللا‘ کے مطابق جنرل آئزنکوٹ کی جانب سے جاری کی گئی دستاویزمیں فوج کو درپیش کسی ایک محاذ پرنہیں بلکہ ہمہ جہت محاذوںÂ جنگ کی کیفیت کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیلی فوج کی اعلیٰ کمان کو ہدایات دی گئی وہ بہادری کے جذبے کے ساتھ پیشہ وارانہ امور کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز رکھیں۔
نئی ترامیم
جنرل آئزن کوٹ کے دستخطوں سے دستاویز کی پہلی قسط 2015ء میں جاری کی گئی تھی۔ اس وقت امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ نہیں تھے اور نہ ہی ان کی منشاء کی پالیسی تھی۔ ایران اور امریکا کے درمیان جاری سرد جنگ بھی آہستہ آستہ ٹھنڈی پڑ رہی۔ شام میں امریکی فوج کی مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ تب بھی صیہونی فوج کو ہمہ جہت محاذوں تیار رہنے کی تاکید کی گئی تھی۔
فوج کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز پر مشتمل یہ دستاویز کابینہ، کنیسٹ کی خارجہ کمیٹی، کنیسٹ کی سیکیورٹی کمیٹی پیش گئی۔ اس میں اسرائیلی فوج کی نئی تزویراتی حکمت عملی اور امریکی محکمہ دفاع’پینٹا گون‘ کی طرف سے پیش کردہ تجاویز شامل تھیں۔
اس دستاویزمیں مختلف محاذوں بالخصوص ایران کے خلاف امریکی فوج کے ساتھ ہم آہنی پیدارکنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
خون ریزی پر توجہ مرکوز
اس دستاویز میں فوج کو ’خون ریزی‘ پر اکسانے کی کوشش کی گئی ہے۔Â فوج کی طرف سے تجویز دی گئی ہے کہ فوج 4 جولائی 1976ء کو یوگنڈا کے ‘عنتیبی‘ ہوائی اڈے والی کارروائی کو سامنے رکھے اور اس کے مطابق تیاری کرے۔ عنتیبی‘ ہوائی اڈے پر اسرائیلی فوجی کمانڈوز کو اس وقت بھیجا گیا تھا کہ سنہ 1976ء کو فلسطینی ہائی جیکروں نے اسرائیلیوں کا ایک طیارہ اغواء کرلیا تھا۔ یہ ہوائی جہاز تل ابیب سے پیرس جا رہا تھا۔ یا دوسرا ماڈل ارئیل شیرون کی قیادت میں قائم کردہ چھاتہ بردار بریگیڈ تھا جس نے فلسطینیوں کے خلاف خونی کمانڈوز کارروائیوں میں حصہ لیا تھا۔
عبرانی ویب سائیٹ کے مطابق آئزنکوٹ کا دور زیادہ خونی نہیں رہا۔ اس دور میں پلاننگ اور بجٹ میں بھی استحکام رہا ہے۔
’فلیش وار‘
جنرل آئزنکوٹ کی طرف سے جاری کردہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ مستقل میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ یا لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف ہونے والی کوئی بھی جنگ ماضی کی جنگوں کی نسبت مختصر ہونی چاہیے۔
جنرل آئزن کوٹ کا کہنا ہے کہ فوج کو جزیرہ نما سیناء میں ’موشے ڈایان‘ یا شیرون کے دور میں لبنان کی پہلی جنگ میں زمینی فوج داخل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب فوج کو مختصر اور ‘فلیش وار‘ کی ضرورت ہے اور دشمن کے خلاف جنگ میں کامیابی کا یہیÂ راستہ ہے۔ مختصر وقت میں دشمن کے ٹھکانوں پر بھرپور جنگ مسلط کی جائے۔ اس لیے آئندہ کی جنگ مختصر اور فلیش وار طرز کی ہونی چاہیے۔
دفاع اور فتح کا ماڈل
فوج کو دشمن پر بالادست اور غالب رکھنے کے لیے جنرل آئزن کوٹ کے مطابق ’دفاع اور فتح‘ کا ماڈل اپنانا ہوگا۔ دشمن کے خلاف کارروائی پر مرکوز کرنے کے لیے فوج کو زمینی کارروائی کے لیے زیادہ پھیلانے کی ضرورت نہیں۔ فوج کو ہدایات دی جائیں کہ وہ اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ فتح پر توجہ رکھے۔
جنرل آئزن کوٹ نے اپنی دستاویز میں نیتن یاھو حکومت کی پالیسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ جنرل آئزن کوٹ فلسطین کی صیہونی کالونیوں سے فوج کو نکالنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی یہ پالیسی نیتن یاھو کی سیاسی پالیسی کے مطابق ہے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج انہی قومی اہداف پر کام کررہی ہے جن اسرائیلی حکومت کی طرف سے متعین کئے گئے ہیں۔ صیہونی فوج اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ صیہونی ریاست کے نظریات، صیہونی آبادکاروں اور آبادی کو ہرممکن تحفظ فراہم کرنا ہے۔
سد جارحیت کی حفاظت
اسرائیلی فوج کی تزیراتی حکمت عملی کے بارے میں دستاویز میں جنرل آئزن کوٹ نے لکھا ہے کہ فوج کو اپنی سد جارحیت کی طاقت کا دفاع کرنا ہوگا۔ اسرائیل کو درپیش عسکری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیاری کے ساتھ ساتھ فوج کا عسکری غلبہ برقرار رکھنا ہوگا۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ فوج کو سیاسی سطح پر وضع کردہ اہداف کو مکمل کرنا ہوگا۔ اسرائیلی فوج دشمن پر غالب آنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہمیں یکے بعد دیگرے دشمن کے خلاف معرکے کو زیادہ گہرائی تک لے جانا ہوگا۔ جنگ کے لیے کسی ایک محاذ سے نہیں بلکہ بری، بحری، فضائی اور سائبر محاذوں کو استعمال کرنا ہوگا۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ آئندہ کے عرصے میں حماس اور حزب اللہÂ اسرائیلی فوج کا سب سے اہم ہدف ہوسکتی ہیں۔ صیہونی کالونیوں میں کسی بھی ہنگامی دفاعی کارروائی کے لیے مؤثرحکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔