مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل کے ممتاز شاعر، ادیب اور دانشور نے صہیونی فوجی کو تھپڑ رسید کرنے کی پاداش میں پابند سلاسل کم سن فلسطینی ’مزاحمت کار‘ عہد تمیمی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عہد تمیمی اپنی قوم کی (جد و جہد آزادی کی) ’علامت‘ اور فلسطینیوں کی ’ہیرو‘ ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی شاعر اور تجزیہ نگار ’گیدعون لیوی‘ جو اسرائیل میں بائیں بازو کے حلقوں میں ’یونٹان گیفین‘ کے لقب سے مشہور نے ’انسٹا گرام‘ پر پوسٹ ایک بیان میں لکھا ہے کہ ’اگرعہد تمیمی بھی اسرائیلی ضمیر سے کوئی ہمدردی حاصل نہیں کر سکتی تو سمجھ لیں کہ فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی ضمیر کبھی حرکت نہیں کرے گا‘۔اسرائیلی شاعر نے مزید لکھا کہ’17 سالہ خوبصورت فلسطینی بچی نے اپنے گھر پر دھاوا بولنے والے اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مار کر ’خوفناک‘ حرکت کی۔ عہد تمیمی نے ایک طمانچہ مارا اور اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو 50 سال سے طمانچے رسید کرتی چلی آ رہی ہے۔ سرخ بالوں والی عہد تمیمی تم دیکھو گی کہ تم ایک روز جان ڈارک، ھانا سینچ اور انا فرانک کے ساتھ ہوگی‘۔
عبرانی میں شائع ہونے والے اسرائیلی شاعر کے فلسطینی لڑکی کی شان میں اس منظوم خراج تحسین کے بعد صیہونی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے گیفین کی تمام نظمیں شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے تاہم اسرائیلی ریڈیو نے وزیر دفاع کا حکم نہیں مانا جس پر لائبرمین نے مشیر قانون سے شکایت کہ ریڈیو اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے۔
اس پر اسرائیلی صحافی اور تجزیہ نگار گیدعون لیفی نے کہا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک اورباعث تشویش ہے کہ لایبرمین اسرائیلی عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ اس کا حل شاعر کی زبان بند کرکے نکالنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس طرح وہ اسرائیلی عوام کو بہت زیادہ خوش کردیں گے۔
لیوی نے مزید لکھا کہ شاعر پر تنقید اور ان کی نظموں کی نشرواشاعت روکنے سے انداز ہوتا ہے کہ ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیزنہیں۔ لایبرمین کو بھی معلوم ہے کہ وہ قانونی اختیارات نہیں رکھتے۔ اسرائیلی جیلوں میں 300 فلسطینی بچے پابند سلاسل ہیں۔ اسرائیلی قانون کے تحت ان بچوں کو ادنیٰ درجے کے حقوق بھی میسر نہیں۔ ان میں عہد تمیمی بھی شامل ہے جسے کوئی انسانی حق نہیں دیا گیا۔اس کا قصور صرف اتنا ہے کہ اس نے اپنے گھرمیں داخل ہونے والے فوجی کو وہاں سے باہر نکال دیا۔ اس کے باوجود اسرائیلی معاشرے میں فلسطینی لڑکی کو کوئی ہمدردی نہیں ملی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسطینیوں کے خلاف کچھ بھی ہوجائے اسرائیلیوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوگی۔
اسرائیلی شاعر نے عہد تمینی کو صیہونی ریاست کے خلاف مزاحمت کرنے والوں میں شامل کیا اور کہا ہے کہ عہد تمیمی فلسطینی قوم کی آزدی کی علامت اور فلسطینیوں کی ہیرو ہے۔ اسے آئندہ ماہ کے آخر میں دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اس وقت تک وہ بغیر کسی فرد جرم عائد کیے پابند سلاسل رہنے کے تین ماہ مکمل کرلے گی۔
لیوی کا کہنا ہے کہ اگر عہد تمیمی کا مذہب ’یہودیت‘ ہوتا تو اس کا ٹرائل ہرگز نہ ہوتا۔ ہمارے یہودی نوجوان فوج کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں مگر وہ ’لاڈلے بچے‘ ہیں۔ اس لیے انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔