رپورٹ میں بطل حریت علی حسن سلامہ کی شہادت کے 39 سال پورے ہونے پران کی شخصیت ، خدمات اور قربانیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ حسن سلامہ کو بائیس جنوری انیس سو اناسی کو بیروت میں ایک بزدلانہ حملے میں شہید کردیا گیا تھا۔
علی حسن سلامہ کون؟
علی حسن سلامہ المعروف ابو حسن یکم اپریل 1941ء کو عراق میں پیدا ہوئے۔ ان کی اہلیہ نے یکم جون 1966ء کو ایک بیٹے کو جنم دیا۔ یہی وہ تاریخ تھی جس میں حسن سلامہ کے داد مجاھد الشیخ حسن سلامہ 18 سال پیشتر جام شہادت نوش کیا تھا۔
ابو حسن نے اپنی تعلیم قاہرہ میں حاصل کی۔ 1964ء وہ قاہرہ سے کویت روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے تحریک فتح کے ساتھ وابستگی اختیار کی۔ تحریک فتح سے ان کا تعارف خالد الحسن ابو سعید کے ذریعے ہوا۔ ابو سعید تنظم میں عوامی رابطہ شعبے کے انچارج تھے۔ تحریک فتح کے مرکزی آبزرویٹری کے نائب کمشنر صلح خلف کی واپسی کے بعد سنہ 1968ء میں انہیں قاہرہ میں ان آٹھ افراد میں شامل کیا گیا جنہیںÂ سیکیورٹی کے امور سونپے گئے۔ انہوں نے کچھ عرصہ تک اردن میں قیام پذیر رہے۔ انہوں نے یاسر عرفات کے ساتھ سپریم عرب کمیٹی کے ساتھ مل کر فدائین کے طورپر ستمبر کی جنگ میں حصہ لیا۔ اسی عرصے میں انہیں یاسرعرفات کے محافظ دستے میں شامل کیا گیا۔ وہ پہلے فلسطینی کمانڈر تھے جنہیں 17 فورسز کا انچارج مقرر کیا گیا۔
مشکل مہمات کا مرد میدان
اردن سے لبنان منتقلی کے بعد علی ابو حسن سلامہ کو صیہونی ریاست کے خلاف خصوصی ٹاسک سونپا گیا۔ انہوں نے بیروت میں رہتے ہوئے فلسطین کے اندر صیہونیوں کے خلاف کئی اہم مہمات کی قیادت کی۔ صیہونی دشمن نے ان کانام بیرون ملک سرگرم اہم ترین فلسطینی انقلابی رہنماؤں کی فہرست میں شامل کردیا۔
دوسری جانب انہوں نے بہت جلد لبنانی عوام میں اپنا ایک خاص مقام بنا لیا۔ ان کے مقربین انہیں مشکل مہمات کا مرد میدان کہہ کر یاد کرتے۔ ان کے بعض اقدامات سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بعض ایسے مشکل مقامات تک بھی پہنچے جہاں اور کوئی نہیں جا سکتا تھا۔
حزب الکتائب کے سابق چیئرمین کریم بقرادونی کا کہنا ہے کہ’میرے ذہن میں ابو حسن کی جو تصویر ابھرتی ہےاس میں وہ کوئی عام آدمی نہیں تھے۔ وہ اپنی جماعت کے سربراہ کے مقام پر تھے۔ ان کا جسمانی ڈیل ڈول اور اپنے مستقل مسکراہٹ سے بھی وہ ہمیشہ فلسطینیوں کے لیڈر دکھائی دیتے۔
ابھی ابو حسن کی عمر تیس سال تھی کہ انہیں یاسرعرفات کی قائم کردہ انقلاب فورسز کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ ابو حسن یاسرعرفاتÂ اوران کے قریبی رفقاء کے رازدان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی دشمن ان کے تعاقب میں رہا اور ان کی زندہ گرفتاری کے ہزار جتن کیے تاکہ فلسطینی قیادت اور یاسر عرفات کے رازدان کو پکڑا جائے۔
میونخ کارروائی
پانچÂ اور چھ ستمبر1972ء کو میونخ میں متعدد صیہونیوں کو جنگی قیدی بنایا گیا۔ یہ کارروائی ’بلیک ستمبر‘ نامی ایک فلسطینی تنظیم نے کی تھی جس کا قیام سنہ ستر کے اوائل میں کیا گیا تھا۔ اس تنظیم میں وہ فلسطینی فدائین شامل تھے جنہیں اردنی حکومت نے لبنان بے دخل کردیا تھا۔ انہوں نے میونخ میں متعدد صیہونیوں کو یرغمال بنا اور ان کی رہائی کے بدلے میں 236 فلسطینیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
اس کارروائی میں پانچ فلسطینی حملہ آوروںÂ اور 11 صیہونی کھلاڑیوں سمیت متعدد جرمن مارے گئے۔ مارے جانے والوں میں ایکÂ جرمن پولیس اور ایک ہیلی کاپٹر کا پائلٹ بھی شامل تھا۔ اس کارروائی میں حسن سلامہ کا بھی اہم کردار تھا۔
سنہ 1972ء کی میونخ کارروائی کے بعد صیہونی دشمن نے ’بلیک ستمبر‘ نامی گروپ کے رہنماؤں کے قاتلانہ حملوں میں شہادت کا سلسلہ شروع کردیا۔ سنہ 1973ء میں بیروت میں فردان نامی ایک حملے میں صیہونیوں نے تین فلسطینیوں کو قاتلانہ حملے میں شہید کیا۔
تاہم حسن سلامہ بدستور زندہ رہے اور وہ صیہونی دشمن کی کارروائیوں میں بال بال بچ جاتے۔ نومبر 1974ء کو یاسرعرفات کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے منبر تک پہنچانے میں بھی ’سرخ شہزادے‘ کا کلیدی کردار تھا۔
سرخ شہزادہ
فلسطینی قیادت نے حسن سلامہ کو بیروت میں صیہونی انٹیلی جنس کے خلاف دنیا بھر کی کارروائیوں کا انچارج مقرر کیا۔ وہ فلسطینی انٹیلی جنس کے ایک اہم اور انتہائی ذمہ دار لیڈر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی خفیہ ادارے اور موساد کے جاسوس مسلسل ان کا پیچھا کرتے رہے۔ بیروت اور کئی دوسرے عرب ملکوں میں پکڑے جانے والے موساد کے جاسوسوں نے اعتراف کیا کہ ان کہ مہمات میں حسن سلامہ کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے۔
حسن سلامہ جانتے تھے کہ اسرائیل کی سابق وزیراعظم گولڈا مائر نے انہیں شہید کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ گولڈا مائر نے سلامہ کو ’وحشی‘ قرار دے رکھا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ لقب حسن سلامہ کو دوسرے فلسطینی لیڈروں سے ممتاز کرتا ہے۔
دشمن کی سازش کامیاب
سنہ 1978ء کے اوائل میں ایک مغربی خاتون ’اریکا شامبرز‘ بیروت پہنچی۔ یہ موساد کی جاسوسہ تھی جو مقامی لوگوں کی معاونت اور بچوں کی کفالت کی آڑ میں حسن سلامہ تک پہنچنا چاہتی تھی۔ وہ اسی آڑ میں وہاں لبنان داخل ہوئی۔ اس نے بیروت آمد ورفت جاری رکھی اور ساتھ ہی ساتھ اس نے حسن سلامہ کی نگرانی بھی شروع کردی۔
اس جاسوسہ کی طرف سے فراہم کردہ نشاندہی کی روشنی میں موساد کے جاسوسوں نے حسن سلامہ کو شہید کرنے کا پلان بنایا۔ دشمن نے’فالکس ویگن‘ کار میں دھماکہ خیز مواد بھرا اور 22 جنوری کو سہ پہر تین بجے حسن سلامی کے ممکنہ راستے پر کھڑا کردیا گیا۔ جب حسن سلامہ کی گاڑی اس کارکے قریب سے گذری تو اسے ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں حسن سلامہ اور ان کے چار ساتھی اور چار راہ گیر شہید ہوگئے۔
ان پر اس سے قبل بھی متعدد بار قاتلانہ حملے کیے گئے تھے مگر وہ اس سے قبل دشمن کے وار سے بچ جاتے۔