نیویارک (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) جمعرات 21 دسمبر 2017ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ اس قرارداد میں بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر کے فیصلے کو باطل قرار دیا گیا۔
اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں یہ قرارداد A.ES-10/L.22 کے نام سے درج کی گئی۔ جنرل اسمبلی کے 193 رکن ممالک میں سے 128 نے قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا۔ حمایت کرنے والا کل تناسب 66.3 فی صد تھا۔ یوں یہ قرارداد دو تہائی سے بھی زیادہ ارکان کی حمایت سے منظور ہوگئی۔21 ممالک رائے شماری کی کارروائی کے وقت غیر حاضر تھے۔ 35 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جب کہ 9 ممالک نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ مخالفت کرنے والوں میں امریکا اور اسرائیل کے سوا باقی تمام ممالک معمولی درجے کے ہیں۔
قرارداد "A/ES-10/L.22” کا متن
جنرل اسمبلی
مذکورہ قرارداد میں 20 نومبر کو جنرل اسمبلی میں منظور ہونے والی قراردادÂ "A/RES/72/15” میں ہونے والے فیصلوں کی باردگر تائید کی گئی۔
اس کے علاوہ اس سے قبل منطور ہونے والی قراردادوں 242 مجریہ (1967) و252 مجریہ(1968) 267 مجریہ (1969) ، 298Â مجریہ(1971) ،338 مجریہ(1973) ،446 مجریہ(1979) ،465 مجریہ(1980) ،476 مجریہ (1980) ،478 مجریہ(1980)Â اور قرارداد2334 مجریہ (2016) میں ہونے والے فیصلوں کی تائید اور حمایت کرتی ہے۔
یہ تمام قراردادیں اقوام متحدہ کے اصولوں اور چارٹر سے لی گئی ہیں۔
قرارداد میں واضح کیا جاتا ہے کہ طاقت کے بل پر کسی علاقے پر قبضہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے واضح کیا جا رہا ہے کہ بیت المقدس شریف اپنے منفرد دینی، روحانی اور ثقافتی مرکز ہونے کے پہلو سے اپنے تحفظ کا متقاضی ہے۔ جیسا کہ ماضی میں اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی القدس کو ایسا ہی مقام قرار دیا گیا ہے۔
یہ قرارداد زور دیتی ہے کہ اقوام متحدہ کے سابقہ قراردادوں کی روشنی میں بیت المقدس کے مستقبل کا تعین کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام بات چیت کے ذریعے آگے بڑھایا جائے۔
قرارداد میں بیت المقدس کےحوالے سے حالیہ عرصے میں ہونےوالے فیصلوں پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
قرارداد درج ذیل اہم امور کی وضاحت کرتی ہے۔
1۔Â اس قرارداد اور ماضی کی تمقراردادوں میں بیت المقدس شریف کے خصوصی اسٹیٹس کو برقرار رکھنے، اس کی آبادیاتی تکوین میں کسی قسم کی تبدیلی سے اجتناب برتنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ اس تبدیلی کے ذریعے شہر کے خصوصی اسٹیس سے متعلق قانون پرکوئی اثر نہ پڑے۔ اگرایسی کسی قسم کی تبدیلی کی گئی ہے تو وہ باطل تصور کی جائے گی۔ القدس کے حوالے سے ایسا کوئی بھی اقدام سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پیروی نہ ہونے کی بناء پر منسوخ سمجھا جائے گا۔ کیونکہ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بالخصوص قرارداد 478 مجریہ 1980ء میں تمام ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ القدس میں اپنے سفارتی مشن قائم کرنے سے گریز کریں۔
2۔ یہ قرارداد عالمی برادری سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ بیت المقدس کے حوالے سے ماضی میں سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کو عمل شکل دینے کے لیے اقدامات کریں اور ان قراردادوں کے برخلاف اقدامات سے سختی سے بچیں۔
3۔ یہ قرارداد تمام ملکوں پر زور دیتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو القدس کی موجودہ حیثیت پر منفی اثرات کرتے ہوئے تنازع کے دو ریاستی حل کے امکانات کو خطرے میں ڈال دیں۔ تمام ملک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد میں تاخیر کے بجائے عالمی اور عالقائی سطح پر جامع، منصفانہ اور دائمی حل تلاش کرنے کے لیے مخلصانہ بات چیت شروع کریں۔ مڈریڈ میں طے کردہ فریم ورک جس میں زمین برائے امن کا اصول وضع کیا گیا اور عرب امن فارمولے اور امن روڈ میپ جسے گروپ چار نے وضع کیا پرعمل درآمد کی کوششیں تیز کی جائیں۔ ان تمام فارمولوں میں اسرائیل سے سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں سے اپنا تسلط ختم کرنےکو کہا گیا ہے۔
4۔ یہ اجلاس جنرل اسمبلی کے ارکان کے مطالبے پرخصوصی، ہنگامی اور ناگزیر حالات میں منعقد کیا گیا جس میں جنرل اسمبلی کے صدر کو جلد از جلد اجلاس منعقد کرنے کو کہا گیا تھا۔