یہ برطانوی مدبرین کی پیداوار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ لیگ آف نیشنز رائل کمیشن کی سفارشات کی تائید نہیں کرے گی اور خدا کرے کہ اس کی تائید نہ کی جائے اور اصل حالات کا از سر نو جائزہ لیا جائے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عربوں کو ان کا صلہ دینے کے لیے یہ کوئی دیانت دارانہ کوشش ہے؟ میں حکومت برطانیہ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسئلہ فلسطین کا جرأت، دلیری اور انصاف کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو یہ برطانوی سلطنت کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ میں صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی بات کر رہا ہوں۔ صحیح سوچ اور منصفانہ ذہن رکھنے والے تمام طبقے میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ برطانیہ اپنی قبر خود کھودے گا، اگر وہ اپنے ابتدائی اعلان، وعدوں اور ارادوں کا احترام نہیں کرے گا، جو اس نے جنگ سے پہلے کئے تھے۔ میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ عربوں کے اندر نہایت شدید احساس پیدا ہوچکا ہے اور حکومت برطانیہ جھلاّ کر اور جوش میں آکر فلسطینی عربوں کے خلاف نہایت سخت تشدد پر اتر آئی ہے۔ مسلمانان ہند عربوں کے اس منصفانہ اور جرأت مندانہ جہاد میں ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے میں ان کو یہ پیغام بھیجنا چاہتا ہوں کہ اس منصفانہ جنگ میں وہ جس عزم، ہمت اور حوصلے کے ساتھ لڑ رہے ہیں وہ انجام کار کامیاب ہو کر رہیں گے۔‘‘
قائداعظم کے مذکورہ بالا خطاب کے حوالے سے چند وضاحتیں ضروری معلوم ہوتی ہیں:
1۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اعلان بالفور کا حوالہ دیا ہے، 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک وطن کے قیام کے لیے اپنے تعاون کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان سے پہلے برطانیہ نے اس کی تائید امریکی صدر وڈروولسن سے حاصل کر لی تھی۔
2۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ لیگ آف نیشنز نے بھی 1922ء میں اعلان بالفور کی تائید کر دی تھی۔
3۔ قائد اعظم شروع ہی سے متوجہ تھے کہ برطانیہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی قومی ریاست کے قیام کے بعد اس سرزمین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر گامزن ہے۔ انھوں نے اس دو ریاستی نظریئے کو شدت سے مسترد کر دیا۔ بعدازاں امریکہ اور برطانیہ اس نام نہاد دو ریاستی حل کی طرف زبردستی پیش قدمی کرتے رہے۔ ایک طرف اسرائیل کی دہشت گردی تھی، دوسری طرف عرب حکمرانوں کی بے وفائی اور تیسری طرف فلسطین کی مایوس قیادت۔ جس کے نتیجے میں بالآخر یاسر عرفات نے دو ریاستی حل کو قبول کر لیا، لیکن فلسطینیوں کو جس طرح کی بے دست و پا ریاست دی گئی اور جیسے اس نام نہاد آزاد علاقے کو اسرائیل کا دست نگر کر دیا گیا اور اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور دیگر معاہدوں کے ذریعے فلسطینیوں سے جو وعدے کیے، انھیں بھی ایفا نہ کیا، جس کے بعد یاسر عرفات اس دو ریاستی حل سے بھی مایوس ہوگئے۔ وہ سمجھ گئے کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے، لیکن جیسا کہ بعد میں ثابت ہوچکا ہے کہ اسرائیل نے زہر دے کر انھیں اپنے راستے سے ہٹا دیا۔ اس ساری صورت حال سے قائد اعظم کی بالغ نظری کا اظہار ہوتا ہے کہ انھوں نے ابتداء ہی سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو ٹھکرا دیا تھا۔
1937ء ہی میں قائد اعظم نے یہ پیشکش کی کہ اگر برطانیہ فلسطین کے بارے میں معقول پالیسی اختیار کرے تو اس کی بھرپور مدد کی جائے گی، بصورت دیگر ہندوستان کے مسلمان عربوں کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، جو قومی آزادی کے لیے جنگ کر رہے ہیں اور اپنے فرض اور حقوق کی حفاظت کے اجراء پر انھیں بہ نوک سنگین مارشل لاء نافذ کرکے دبایا جا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کی طرف سے یہودیوں کی امداد اور انھیں دنیا بھر سے اکٹھا کرکے فلسطین میں آباد کرنے کی امریکی سازش کے خلاف قائد نے امریکہ پر کڑی نکتہ چینی کی۔ انھوں نے اینگلو امریکی کمیٹی کی طرف سے ایک لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں داخلے کی اجازت دینے کی سفارش کرنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ نہایت ہی بے ایمانی کا فیصلہ ہے اور اس میں انصاف کا خون کیا گیا ہے۔ قائد نے عربوں سے کہا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جائیں اور ایک یہودی کو بھی فلسطین میں داخل نہ ہونے دیں۔
جیسا کہ ہم ایک اور مقام پر لکھ چکے ہیں کہ پاکستان کے بننے کے بعد بھی 1947ء میں جب قائد اعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائد اعظم کے نام بھجوایا۔ جس کا جواب بانی پاکستان نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا:
’’دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دیگا۔ مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکہ اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوؤں کے خلاف پہلے ہی 5 لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انھیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہوں گی۔‘‘
قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے قائد نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ
’’اس برصغیر کے مسلمان تقسیم فلسطین کے متعلق اقوام متحدہ کے ظالمانہ، ناجائز اور غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب و لہجہ میں احتجاج کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ برصغیر کے مسلمان امریکہ یا کسی اور ملک کی مخالفت مول نہیں لینا چاہتے، لیکن ہماری حسِ انصاف ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہر ممکن طریقے سے مدد کریں۔‘‘
بی بی سی کو دیئے گئے قائد کے اس انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو بھی فلسطین کے مسئلے پر شریک جرم سمجھتے تھے اور اس کے خلاف انھوں نے نہایت بے باکی سے صدائے احتجاج بلند کی۔ ایک اور بات جو ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ قائد کے پیش نظر ظلم کے خلاف انصاف کی حمایت تھی۔ قائداعظم کے پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ خارجہ پالیسی میں اسی اصول کو پیش نظر رکھے۔
انہی دنوں قائد اعظم نے رائٹر کے نمائندے کو بتایا کہ
’’فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی صراحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ محمد ظفر اللہ خان نے کی ہے۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا۔ ورنہ ایک خوفناک ترین اور بے مثال چپقلش کا شروع ہو جانا ناگزیر اور لازمی امر ہے۔ یہ چپقلش صرف عربوں اور منصوبۂ تقسیم کو نافذ کرنے والوں کے مابین نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف عملی طور پر بغاوت کرے گی، کیونکہ ایسے فیصلے کی حمایت نہ تاریخی اعتبار سے کی جاسکتی ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے اور خواہ مخواہ کے اشتعال اور ناجائز دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ اس کے بس میں ہے پورے جوش و خروش اور طاقت سے بروئے کار لائے۔‘‘
اس بیان کا آخری جملہ قائد اعظم کی شجاعت اور بہادری کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ اس وقت جب کہ پاکستان کے پاس ابھی ایسی منظم اور طاقت ور فوج بھی نہ تھی، وہ فلسطین کے مسئلے پر عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کر رہے تھے اور واشگاف الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ جو کچھ پاکستان کے بس میں ہے، وہ فلسطینیوں کی حمایت میں پورے جوش و خروش اور طاقت سے بروئے کار لائے گا۔
پاکستان کئی دہائیوں تک فلسطین کے مسئلے پر اپنے قائد اور بانی کے نقطۂ نظر پر قائم رہا، لیکن بعدازاں عالمی استعماری طاقتوں کے دباؤ کے نتیجے میں بعض ایسے اقدامات بھی کئے گئے کہ جو قائد کی حکمت عملی سے انحراف کی غمازی کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے قائد اور بانی کی دی ہوئی دانشمندانہ اور مبنی برحق حکمت عملی کو پورے جوش و خروش سے اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ دنیا میں اس کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ایک ظلم کو جائز تسلیم کرنا نئے ظلم کے لیے راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔