تحریر: عرفان علی
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مقبوضہ یروشلم یعنی بیت المقدس کو جعلی ریاست اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ 6 دسمبر بروز بدھ واشنگٹن میں انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے اس اعلان کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لئے ہر ممکن کردار ادا کریں گے، حالانکہ اب یہ ممکن نہیں ہے کہ ٹرمپ جیسے جانبدار و متعصب حکمران پر اعتماد کیا جاسکے۔ صہیونی وزیراعظم بن یامین نتین یاہو نے ٹرمپ کی تقریر کے فوراً بعد ان کا شکریہ ادا کیا، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے نیویارک میں ایک مختصر بیان میں اسے مسترد کر دیا۔ بی بی سی پر صہیونی وزیر نفتالی بینیٹ نے یہ دعویٰ کیا کہ یروشلم (یعنی بیت المقدس) تین ہزار سال سے ان کا دارالحکومت ہے تو اس کے بعد تنظیم آزادی فلسطین کی خاتون رہنما حنان عشراوی نے بی بی سی کے توسط سے دنیا کو بتایا کہ وہ فلسطینی عرب مسیحی ہیں اور اسرائیل نے جنگ کرکے یروشلم پر قبضہ کیا ہے، یعنی صہیونی وزیر جھوٹ بول رہا ہے۔ ٹرمپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ 1967ء تک بھی یروشلم (بیت المقدس) جعلی ریاست اسرائیل کا حصہ نہیں تھا اور تب بھی جنگ کے نتیجے میں اس نے یہاں قبضہ کیا تھا۔ صرف یروشلم ہی نہیں بلکہ پورے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ جما کر اس کا نام مئی 1948ء میں اسرائیل رکھنے والے نسل پرست صہیونی دہشت گرد تھے۔ حتٰی کہ اس کا بانی ڈیوڈ بن گوریان بھی پولینڈ میں پیدا ہوا تھا۔ ان غیر ملکی صہیونی یہودیوں کا فلسطین کے کسی بھی حصے سے کوئی تعلق نہیں تھا اور فلسطین پر قبضے کی سازش بھی انہوں نے سوئٹزر لینڈ میں اپنے ایک اجتماع میں پیش کی تھی۔ ٹرمپ سمیت کوئی بھی صہیونیت نواز شخص دنیا کو اسرائیل سے متعلق ان حقائق سے لاعلم نہ سمجھے۔ اقوام متحدہ کے قوانین کی رو سے بھی اسرائیل رکنیت کی اہلیت نہیں رکھتا تھا، لیکن عالمی سامراجی اتحاد کے سرکردہ ممالک کی وجہ سے اس کو رکنیت دی گئی۔ ایک طویل عرصے تک اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرار دیا گیا، لیکن عالمی سامراج نے پس پردہ دھونس اور دھاندلی کی سیاست کرکے اسے نسل پرست ریاست کے زمرے سے خارج کروا دیا۔یاد رہے کہ جعلی ریاست اسرائیل کے حکومتی دفاتر اور صدر و وزیراعظم نے اپنی رہائشگاہیں مغربی یروشلم میں قائم کر رکھی ہیں اور غیر ملکی سربراہان مملکت سے بھی وہاں ملاقاتیں ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود کسی ایک بھی ملک کا سفارتخانہ یروشلم میں نہیں ہے، حالانکہ 86 ممالک نے اپنے سفارتخانے اسرائیل میں قائم کر رکھے ہیں۔ ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکہ پہلا ملک ہے جس نے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی کانگریس نے 1995ء میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ منظور کیا تھا۔ ٹرمپ نے اس کا حوالہ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ چھ ماہ قبل سینیٹ نے بھی انہیں ایسا کرنے کی تاکید کی تھی۔ 1995ء سے ہر امریکی صدر اس قانون کو ہر چھ ماہ بعد دستخط کرکے موخر کرتا آرہا تھا۔ ٹرمپ نے بھی جون میں اسے موخر کرنے کے حکم پر دستخط کئے تھے۔ یاد رہے کہ فلسطین کے ساتھ بدترین دھاندلی برطانیہ کے وزیر خارجہ لارڈ آرتھر بالفور نے 2 نومبر 1917ء کو کی تھی کہ جب اس نے ایک بیان میں یہودیوں کے لئے فلسطین میں نیشنل ہوم کا تذکرہ کیا تھا اور جسے 1948ء میں صہیونی دہشت گردوں نے اپنے اعلان آزادی میں ایک ریفرنس کے طور پر پیش کیا تھا۔ سوال تو یہ کیا جانا چاہیے کہ کیا کوئی غیر ملکی حکومتی عہدیدار کسی دوسرے ملک کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر کرسکتا ہے؟ کسی قانون کی رو سے کوئی غیر ملکی حکومتی عہدیدار ایسا نہیں کرسکتا، لیکن برطانوی سامراج کے وزیر خارجہ نے ایسا کیا اور اب 6 دسمبر کو امریکی صدر ٹرمپ نے ایسا کیا ہے۔ یروشلم یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ کے کسی علاقے کا نام نہیں ہے کہ امریکہ کے قانون ساز ادارے یا حکمران اس کے بارے میں کوئی فیصلہ سنائیں۔ امریکی کانگریس، سینیٹ اور صدر تینوں کے احکامات برائے فلسطین کی کوئی قانونی و اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے قوانین یعنی انٹرنیشنل لاء کے مطابق بھی یروشلم کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
سابق امریکی صدور عالم اسلام و عرب کے ردعمل سے ڈرتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ مسلم ممالک کے عوام ویسے ہی امریکہ سے شدید نفرت کرتے ہیں اور کوئی بھی کھلا اسرائیل نواز فیصلہ مسلمانوں کے غیظ و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ سابق امریکی صدور کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسلمان حکمران ان کے اتحادی ہونے کے باوجود مسلمانوں کے ردعمل کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس لئے انہوں نے مرحلہ وار اسرائیل کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل کیا۔ ٹرمپ کے دور تک مسلمانوں اور عربوں کو داخلی انتشار میں اس درجہ پھنسا دیا گیا ہے کہ اب امریکی اسٹیبلشمنٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ماحول اسرائیل کے حق میں مکمل طور پر سازگار ہے۔ سعودی عرب میں ٹرمپ کا اتحادی بادشاہ سلمان اور ولی عہد بیٹا محمد بن سلمان امریکی ایجنڈا پر مکمل طریقے سے عمل پیرا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے امریکہ نے عرب لیگ، جی سی سی اور او آئی سی کو بھی ہائی جیک کر رکھا ہے اور اب یہ تنظیمیں امریکہ کے مخالف ممالک کے خلاف قراردادیں جاری کرنے کے لئے استعمال کی جا رہی ہیں۔ مسلمان ممالک کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے شیوخ کے ذریعے بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کا یہودی داماد جاریڈ کشنر ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا ذاتی دوست بن چکا ہے اور ان تینوں پر مشتمل مثلث مشرق وسطٰی کے بعض اہم معاملات پر اپنے فیصلے مسلط کر رہے ہیں۔ جاریڈ کشنر کے دورے کے بعد محمد بن سلمان نے سعد حریری کو ریاض بلوا کر وہیں سے استعفٰی کے اعلان پر مجبور کیا تھا۔ اس کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس کو طلب کرکے انہیں بتا دیا گیا تھا کہ جیسا حل جاریڈ کشنر کی ٹیم بتائے گی، اسی پر عمل ہوگا۔ جاریڈ کشنر کے بارے میں ایک اطلاع یہ ہے کہ یہ ہنری کسنجر سے مشورے لے رہا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے 3 دسمبر 2017ء کو ایک خبر میں یہ انکشاف کردیا تھا کہ محمود عباس کو بتا دیا گیا ہے کہ ابو دیس نامی علاقے کو فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرلے، فلسطین سے بے دخل کئے فلسطینیوں، پناہ گزینوں اور ان کی اولادوں کی واپسی بھی نہیں ہوگی اور یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنا ہوگا، غیر قانونی یہودی بستیاں بھی ختم نہیں ہوں گی اور مغربی کنارے کو بھی شمال اور جنوب کے علاقوں سے کاٹ کر رکھا جائے گا۔ ویسے بھی مغربی کنارے کا اکسٹھ فیصد علاقہ اسرائیل کے ہی کنٹرول میں ہے اور مزید قبضہ بھی کیا جائے گا۔ سکیورٹی بھی اسرائیل کے کنٹرول میں ہوگی۔ محمود عباس سے کہا گیا کہ یہ سب کچھ قبول کرے، ورنہ صدارت چھوڑ دے۔ حتٰی کہ مغربی کنارے کا پورا علاقہ بھی مجوزہ فلسطینی ریاست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس خبر میں درج معلومات لبنانی، فلسطینی اور مغربی حکومتی عہدیداروں نے فراہم کی ہیں، اس لئے خبر میں وزن ہے۔ ٹرمپ کے اس اعلان کے جواب میں اگر مسلمان و عرب ممالک نے صرف بیانات کی حد تک مخالفت کی اور عملی اقدامات نہ کئے تو پھر فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے گا۔ مسلمان اور عرب ممالک اگر واقعی عالم اسلام و عرب کے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں تو انہیں فوری طور پر امریکہ سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیں، امریکی سفارتی عملے کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر اپنے ممالک سے نکال دیں، امریکہ کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات اور تعاون ختم کر دیں۔ حتٰی کہ امریکی اڈوں کو بھی ختم کیا جائے اور امریکی افواج کو بھی مسلمان ممالک سے نکال باہر کیا جائے۔ امریکہ سے درآمدات و برآمدات بھی ختم کی جائیں اور امریکہ سے اپنا سرمایہ بھی نکلوا لیں۔ عرب لیگ، او آئی سی اور سعودی عرب کا نیا فوجی اتحاد یہ سب مل کر فلسطین کو اور یروشلم کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرائیں۔ اگر مسلمان ممالک مشترکہ طور پر امریکہ کا مکمل بائیکاٹ کر دیں تو امریکہ خود ہی اپنے فیصلے سے دستبردار ہو جائے گا اور جنگ کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
اگر مسلمان ممالک خود مشترکہ فوج کے ذریعے آزادی فلسطین کی جنگ نہیں لڑنا چاہتے تو پھر لبنان و فلسطین کی مقاومتی تحریکوں حزب اللہ، حماس، حزب جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ، الفتح کی جنگ آزادی کی حمایت اور مدد کریں، تاکہ وہ اپنے اپنے مادر وطن کو جعلی ریاست اسرائیل کے ناجائز قبضے سے آزاد کروا لیں۔ اسلحے اور پیسے سے بھی مدد کریں اور عالمی اداروں میں ان کی سفارتی و اخلاقی مدد کریں۔ سعودی عرب کے حکام نے نیویارک ٹائمز کی خبر کی تردید کی ہے، مگر انکا عمل بتائے گا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہیں یا عالم اسلام و عرب کے ساتھ۔ اور اگر مسلمان ممالک ایسا کچھ بھی نہیں کرتے، جو یہاں لکھا گیا ہے تو پھر غیرت مند فلسطینیوں کے پاس صرف ایک ہی آپشن بچے گا کہ وہ مقاومت کے محور ایران، شام بلاک میں باضابطہ اور اعلانیہ شمولیت اختیار کر لیں۔ فلسطین کا حل ایک ریاستی ہی ہے، لیکن اس ریاست کا نام فلسطین ہوگا نہ کہ اسرائیل۔ امریکہ نے پورے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دیا ہے جبکہ فلسطینی انتظامیہ مشرقی یروشلم کہ جہاں القدس حرم شریف ہے، اسے دارالحکومت قرار دیتی ہے اور عالم اسلام و عرب کا بھی یہی موقف ہے۔ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا مسیحی یا یہودی، اصل جھگڑا یہاں غیر ملکیوں سے ہے، وہ غیر ملکی جو اپنے اپنے ملک چھوڑ کر نسل پرست صہیونی دہشت گردوں کے ایجنڈا پر عمل کرنے یہاں مقیم ہوئے۔
فلسطین کے مسئلے کا ایک پرامن حل یہ ہے کہ ریفرنڈم کے ذریعے فلسطینی یہودی، مسلمان و مسیحی جو کہ یہاں کے اصل باشندے ہوں، صرف وہ ووٹ کے ذریعے ملک کے سیاسی مستقبل اور سیاسی نظام کا فیصلہ کریں، جبکہ باہر سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کو انکے اصلی وطن واپس بھیجا جائے۔ یروشلم کا ایشو مسئلہ فلسطین کا ہی ایک حصہ ہے، اس لئے ٹرمپ کا اعلان درحقیقت فلسطین پر اسرائیل کے مکمل قبضے کو تسلیم کرنے کے مترداف ہے۔ ٹرمپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس خطے میں ناامنی کی سب سے بڑی وجہ اسرائیل خود ہے کہ جس نے ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کیا، نہ صرف فلسطین میں کیا بلکہ لبنان کے صبرا شتیلا کیمپوں میں بھی کیا اور لاکھوں فلسطینی آج تک اپنے وطن سے دور پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ انکے گھروں اور علاقوں پر غیر ملکی یہودی قبضے کرکے وہیں آباد ہوگئے تھے۔ ایران، ترکی، پاکستان سمیت بہت سے ممالک اور حماس و تنظیم آزادی فلسطین سمیت سبھی اس ایشو پر پیشگی ردعمل ظاہر کرکے اسے مسترد کرچکے تھے۔ امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک بھی مسلمان اور عرب ممالک کے ردعمل کو مدنظر رکھ کر ہی کوئی پالیسی وضع کریں گے۔ اگر مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے خیانت کی تو پھر غیروں سے شکایت نہیں کی جاسکے گی۔ عالم اسلام کے غیرت مند فرزندوں کو معلوم ہے کہ اب قیام کا وقت ہے۔ ٹرمپ نے عالم اسلام و عرب کی غیرت کو للکارا ہے، عالم اسلام و عرب کو بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ عوام کا اوقیانوس اس ایشو پر اسی طرح میدان میں ہونا چاہیے، جیسے کہ وہ عالمی یوم القدس پر ہوتا ہے۔ کوئی ایسا ردعمل آنا چاہیے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ عوامی غیظ و غضب کے بارے میں اپنے غلط اندازوں پر پشیمان ہونے پر مجبور ہو جائے۔