رپورٹ میں غرب اردن کے شمالی شہر جنین کے قباطیہ قصبے میں فلسطینی اسیران کے مکانات کی مسماری پر روشنی ڈالی ہے۔
صہیونی فوج نے گذشتہ روز اسیر محمد زیاد ابو الرب کے اہل خانہ کو مکان خالی کرنے کا نوٹس جاری کیا اور کہا کہ ان کا مکان کسی بھی وقت مسمار کیا جاسکتا ہے۔
ابوالرب کے اہل خانہ پریشان ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ صیہونی فوجی کسی بھی وقت ان کا مکان مسمار کرسکتے ہیں اور یہ کارروائی رات کی تاریکی میں بھی کی جاسکتی ہے۔
زیاد ابو الرب نے بتایا کہ گذشتہ روز اسرائیلی فوج نے ان کے وکیل سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ فوج کسی بھی وقت الرب کے مکان کو مسمار کرنے کے لیے آسکتی ہے۔
ابو الرب نے بتایا کہ صیہونی فوج نے 25 اکتوبر کو بھی ان کے گھر پر دھاوا بولا۔ صیہونی فوج کے ہمراہ انجینیر اور ماہرین تعمیرات بھی تھے۔ انہوں نے مکان کی پیمائش کی اور اہل خانہ کو نوٹس جاری کیا کہ مکان کو ایک ماہ کے اندر اندر خالی کردیا جائے تاکہ اسے مسمار کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی فوج کے دھمکی آمیز نوٹس کے بعد ہم نے اسرائیلی سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی ہے۔ ہم نے عدالت کو بتایا ہے کہ ان کا مکان آج کل کے دونوں میں مسمار کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا پورا گھرانہ پریشانی کے عالم میں زندہ ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے مکان کو کسی بھی وقت مسمار کیا جاسکتا ہے۔
مکانات مسماری معمول بن چکی
ایک مقامی شہری احمد کمیل نے بتایا کہ قباطیہ شہر کے فلسطینی باشندے اسرائیلی فوج کی طرف سے مکانات مسماری کی کارروائیوں سے بری طرح متاثر ہیں۔ بدھ اورجمعرات کی درمیانی شب قباطیہ کے تمام شہری رات بھر جاگتے رہے کیونکہ کسی بھی وقت صیہونی فوج مکانات کی مسماری کا سلسلہ شروع کرسکتی ہے۔
کمیل کا کہنا ہے کہ قباطیہ میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کی صہیونی نسل پرستانہ پالیسی نئی نہیں۔ 18 جولائی 2016ء کو اسرائیلی فوج نے اسیر بلال احمد ابو زید کے مکان کو مسمار کیا گیا۔
چار اپریل 2016ء کو تین فلسطینی مجاھدین اور القدس میں فدائی حملہ کرنے والے فلسطینی مزاحمت کاروں ناجح موسیٰ زکارنہ، ناجح عبدالطیف ابو الرب اور احمد محمد کمیل کے مکانات مسمار کئے گئے۔
برطانوی استبدادی قانون کا نفاذ
فلسطینی انسانی حقوق کارکن اور قانون دان محمد کمنجی نے کہا کہ مکانات مسماری کا صیہونی قانون برطانوی استبداد کی دین ہے۔ برطانوی استبداد نے سنہ 1945ء میں فلسطینیوں کے مکانات مسماری کے لیے آرٹیکل 119 جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا یہ برطانوی دور کا قانون فلسطینی قوم کو اجتماعی سزا دینے کی مجرمانہ کوشش ہے۔ آخری دور میں برطانیہ نے بھی یہ قانون منسوخ کردیا تھا مگر قابض صیہونی ریاست نے اپنے جرائم کے تسلسل کے لیے اس کالے قانون کو بدستور نافذ کررکھا ہے۔