الخلیل – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کےعسکر ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کا نام جس شخصیت کی طرف سے منسوب ہے وہ اپنی ذات میں ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کا سفر ایک مدرس سے ہوتا ہے مگر ان کی زندگی کا آخری دور جہاد، جدو جہد اور شہادت سے عبارت ہے۔
الشیخ عزالدین القسام سنہ 1883ء کو شام کے ایک دور افتادہ علاقے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے القسام انقلابی سوچ رکھتے۔ مصر کی جامعہ الازھر سے تعلیم سے فراغت کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام انقلاب اور تبدیلی کا دین ہے۔ اسلام صرف تعلیمات اور ہدایات کا مذہب نہیں بلکہ عملیÂ جہاد کا درس دیتا ہے۔ اسلام جھک کر نہیں بلکہ غالب رہنے والا دین ہے اور مسلم امہ کے لیے جہاد، غلبے اور عزت کا سبق دیتا ہے۔مدرس اور خطیب
الشیخ عزالدین القسام نے 1906ء میں جامعہ الازھر سے فروغت کے بعد شام واپسی کا قصد کیا اللاذقیہ شہر کے ایک پہاڑی علاقے میں درس تدریس کا کام شروع کردیا۔ یہ وہ دور تھا جب شام پر فرانسیسی استبداد کا قبضہ تھا۔ فرانسیسی غاصبوں نے شام میں لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا تھا اوریہ لوٹ مار شامی عوام اور صاحب ضمیر کے لیے ناقبل برداشت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ الشیخ القسام نے شامی عوام میں بیداری اور شعور پیدا کرنے اور فرانسیسی استبداد کے خلاف جدو جہد کا عزم کرلیا۔ انہوں نے اپنے طلبا اور دیگر شہریوں کو بھی فرانسیسی مظالم کے خلاف بیداری کی مہم تلقین شروع کردی۔
بالآخر ایک مدرس اور مسجد میں خطیب سے آگے بڑھ کر انہوں نے فرانسیسی استبداد کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ فرانسیسیوں نے انہیں عدم موجودگی میں سزائے موت سنا دی۔ الشیخ القسام اللاذقیہ سے دمشق چلے آئے اور وہاں سے فلسطین کے شہر حیفا میں منتقل ہوئے۔
الشیخ القسام نے جو مشن شام میں شروع کیا تھا اس فلسطین میں بھی جاری رکھا۔ حیفا کی مسجد الاستقلال میں امامت اور خطابت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ فلسطینی قوم میں بھی بیداری کے جذبات پیدا کرنے شروع کر دیے۔
مسلح جہاد
فلسطین کی جامعہ بیرزیت میں تاریخ کے پروفیسر سمیح حمودہ جو القسام کےحوالے سے ’بیداری اور انقلاب‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے بھی مصنف ہیں کا کہنا ہے کہ الشیخ القسام نے حیفا میں فلسطینی نمازیوں میں انقلاب کے جذبات پیدا کرنا شروع کیے۔ ان کی تقریر میں بھی بلا کی تاثیرتھی یہی وجہ ہے کہ سننے والے ان کی تقریروں کو ’آتشیں خطاب‘ کہا کرتے تھے۔
ایک بار جمعہ کی نماز کے اجتماع موقع پر انہوں نےÂ اپنے ہاتھ میں موجود پستول لہرائی اور کہا غاصب انگریزوں کا یہی علاج ہے۔
انہوں نے کہا کہ الشیخ القسام نے فلسطین میں برطانوی استبداد کے خلاف جدو جہد کا آغاز مسجد کے منبر ہی سے کیا تھا۔ انہوں نے حیفا کے علاوہ الجلیل اورجنین شہروں کے بھی دورے کیے اور فلسطینیوں کو برطانوی استبداد کے خلاف بیدار کیا۔
انقلابی خطاب
فلسطین اسٹڈیز کے سابق استاد تیسیر جبارہ نے کہا کہ الشیخ القسام کی تقاریر میں انقلابی تھیں اور انہوں نے جس انداز میں حیفا کی مسجد سے جس انداز میں لوگوں کو مخاطب کرنا شروع کیا وہ مقامی فلسطینی آبادی کے لیے پہلے تو غیر مانوس تھا مگر جلد ہی فلسطینی شہری ان کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد لوگ دور دراز سے پرانی بیل گاڑیوں یا دیگر ذرائع کو استعمال کرکے حیفا کی مسجد میں جمعہ پڑھنے آتے اور شوق سے الشیخ القسام کی تقاریر سنتے تھے۔
بہت جلد الشیخ القسام نے فلسطینی آبادی پر اپنی دھاک اور شخصیت کا جادو چڑھا دیا۔ یہاں تک کہ کسان اپنا غلہ فروخت کرکے اس کے بدلے میں حاصل ہونے والی رقم الشیخ القسام کو پیش کرنے لگے تاکہ اس رقم سے وہ اسلحہ خرید سکیں۔ فلسطینی نوجوانوں میں بھی برطانوی استبداد کے خلاف لڑنے اور آزادی کے حصول کے جذبات پیدا ہونا شروع ہوئے اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان کے گرد جمع ہوگئی۔
معاصر تجربات
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ القسام بریگیڈ کی معاصر قیادت نے بھی الشیخ القسام کی سیرت اور تجربات سے استفادہ کیا ہے۔ عبرانی یونی ورسٹی میں فدائی حملہ کرنے والے اسیر محمد ابو عرمانہ اور القسام بریگیڈ کے رہنما نے بھی الشیخ القسام کی تعلیمات اور تجربات سے استفادے کی تصدیق کی۔
ابو عرمانہ نے اپنی کتاب’موت کے انجینیر‘ نے لکھا ہے کہ القسام بریگیڈ کے گروپ مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے خود کو ’کلسٹرسیلز‘ کی شکل میں منظم کر رکھا ہے۔ ان میں ایک گروپ دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
انہوں نے بتایا کہ’کلسٹر سیلز‘ کا سب سے پہلے تصور سنہ 1930ء کے عشرے میں الشیخ القسامÂ نے برطانوی استبداد کے خلاف جہاد کے لیے پیش کیا تھا۔
تاریخ کا فیصلہ کن موڑ
الشیخ عزالدین القسام کی انقلابی جدو جہد نے فلسطین میں فیصلہ کن تبدیلی کا آغاز کیا۔ فلسطین میں برطانوی استبداد کے خلاف مسلح جدو جہد شروع کیا۔ جب انہوں نے برطانوی استبداد کے خلاف مسلح تحریک شروع کی تو برطانوی ان کے خلاف ہوگئے اور ان کا تعاقب شروع کردیا۔ الشیخ القسام حیفا سے جنین کے نواحی علاقے یعبد میں قیام کیا اور قابض برطانوی فوج کے خلاف گوریلا جنگ شروع کردی۔
انہوں نے برطانوی فوج کے خلاف کئی معرکوں میں حصہ لیا۔ اس دوران بعض ضمیر فروش ایجںٹوں نے الشیخ القسام کے ٹھکانے کی نشاندہی کردی۔ اس وقت خربہ الشیخ زید میں مقیم تھے۔ ایک انگریز افسر نے الشیخ القسام کو ہتھیار پھینکنے کا حکم دیتے ہوئے خود کو حکام کے حوالے کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں انہیں ہتھیار ڈالنا ہوں گے تاہم الشیخ الشیخ القسام نے برطانوی قابضوں کو صاف جواب دیا اور کہا کہ وہ کسی بھی صورت میں ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ انہوں نے اپنے مجاھدین کو حکم دیا کہ وہ شہادت کے لیے تیار ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ہی اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی۔ یہ لڑائی چھ گھٹنے جاری رہی۔29 نومبر 1935ء میں اس لڑائی کے دوران 15 مجاھدین جن میں الشیخ القسام بھی تھے جام شہادت نوش کر گئےتھے۔ شہید ہونے والوں میں الشیخ القسام کے تین قریبی ساتھی بھی شامل تھے۔