فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں حالیہ ایام میں شائع ہونے والی ان رپورٹس کا مطالعہ کیا ہے جن میں صہیونی ریاست اور میانمار کی فوجی حکومتوں کےدرمیان آج تک دفاعی اور فوجی تعاون کا سلسلہ جاری رہنے کی تصدیق کی گئی ہے۔
عبرانی اخبارات اور نیوز ویب سائیٹس کے مطابق انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے الزامات کا سامنا کرنے والے میانمار[برما] کی حکومت کو اسرائیل نے مسلسل ہتھیاروں اور گولہ بارود کی سپلائی جاری رکھی۔ عالمی سطح پربین الاقوامی اداروں کی تنقید کے باوجود صہیونی فوج اور میانمار کے محکمہ دفاع کے درمیان دفاعی معاہدوں پرعمل درآمد جاری رہا ہے۔
عبرانی اخبار کے رپوٹر’جون براؤن‘ کی مرتکب کردہ Â ’تشدد کے باوجود اسرائیل کا میانمار کو اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ جاری‘ کے عنوان سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پوری دنیا میں برما کی حکومت پر وہاں کی مسلمان اقلیت کے ساتھ غیرانسانی سلوک اور جنگی جرائم کے الزامات کے باوجود اسرائیل نے میانمار کی حکومت کو اسلحہ کی فراہمی جاری رکھی ہے۔
اخباری رپورٹ کے مطابق میانمار کی فوج کے جنرل مین اونگ ھیلنگ نے ستمبر 2015ء میں اسرائیل کا دورہ کای اور صہیونی محکمہ دفاع کے ساتھ متعدد معاہدے کیے جن میں مہلک ہتھیاروں کی خریداری بھی شامل تھی۔
اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں بھی اسرائیل برما کی فوجی آمرانہ حکومت کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار مہیا کرتا رہا ہے۔
خیال رہے کہ 25 اگست کے بعد میانمار کی حکومت نے روہنگیا نسل کے مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں اب تک سیکڑوں بے گناہ مسلمان شہید اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے ہیں۔
انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے باعث امریکا اور اقوام متحدہ نے برما کی حکومت کو اسلحہ کی فراہمی پرپابندیاں عاید کررکھی ہیں مگر اس کے باوجود اسرائیل وہاں کی سفاک حکومت کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ یہ اسلحہ وہاں کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف بےدریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔
میانمار میں نہتے روہنگیا مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام میں، نسل کشی اور ان کی املاک ومکانات کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیار اور گولہ بارود کا بڑا ذخیرہ صہیونی ریاست کی طرف سے فراہم کیا گیا تھا۔
میانمار حکومت کی ریاستی دہشت گردی کا یہ سلسلہ آج بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ برمی فوج نے معصوم مسلمانوں کے خلاف بربریت کی انتہا کردی ہے۔ برما میں مسلمانوں کے قتل عام کے حوالے سے جتنے اعدادو شمار سامنے آرہے ہیں وہ وہاں پر ہونے والی اصل تباہ کاریوں اور ریاستی دہشت گردی کی اصل تصویر نہیں۔
جب سے میانمار میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تب سے صہیونی ریاست کی جانب سے برما کو اسلحہ اور گولہ وبارود کی فراہمی بھی غیرمعمولی حد تک بڑھ گئی ہے۔
جرائم کا حجم پردہ راز میں
اسرائیلی فوج کی مقرب سمجھی جانے والی ویب سائیٹ ’وللا‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کچھ ہی عرصہ پیشتراسرائیل نے برما کے آرمی چیف کوتل ابیب کے سرکاری دورے کی دعوت دی۔ Â برمی آرمی چیف نے یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا جب یورپی یونین اور امریکا کی جانب سے میانمار کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندیاں عاید ہیں۔
برما میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی پاداش میں یورپی اور امریکی پابندیوں کے باوجود صہیونی ریاست میانمار کی حکومت کھلے عام اسلحہ، جنگی سازو سامان اور مہلک ہتھیار فروخت کرتی رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی دفاعی صنعت میں تیار ہونے والی جنگی مصنوعات کے سب سے بڑے خریداروں کی فہرست میں ایک نام برما کا شامل ہے۔ برما کی فوج خاص طور پر اسرائیلی ہتھیاروں کی خریداری میں دلچسپی رکھتی ہے۔ برما کی ملٹری کونسل نے کچھ عرصہ قبل اسرائیل سے جنگی آبدوز’سپر ڈوورا 3‘ خرید کی۔ یہ جدید ترین، تیز رفتار اور جدید مواصلاتی آلات سے لیس، مہلک ہتھیاروں کے استعمال میں مشہور ہے۔
اسرائیلی فضائی دفاعی کمپنی IAI کی تیار کردہ یہ آبدوز اب میانمار کے بحری بیڑے کا حصہ بن چکی ہے۔
اسرائیل کے ڈیفنس ایکسپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین میچل بن باروکھ نے گذشتہ موسم گرما میں برما کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کو مزید فروغ دینے کے کئی معاہدئے کیے گئے۔ اسرائیلی عہدیدار کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں برما کی فوج کو اسلحہ اور اہلکاروں کو جنگی تربیت کی فراہمی بھی شامل تھی۔
ویب پورٹل کے مطابق وزارت دفاع Â برما کو فروخت کی گئی جنگی مصنوعات کی تفصیل جاری کرنے سے گریزاں رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سیکیورٹی، سیاسی اور تزویراتی اسباب بیان کے جاتے ہیں مگر پابندیوں کی زد میں آنے والے ممالک کو اسلحہ کی فروخت پر نظر رکھنے والی تنظیموں نے بار بار یہ معاملہ اٹھایا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ سے بھی اس حوالے سے پوچھ تاچھ کی گئی مگر اس کا کوئی ٹھوس جواب نہیں مل سکا۔
اسی ضمن میں اسرائیلی سپریم کورٹ میں حکومت کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ عدالت میانمار کو ٹرکوں پر لاد کراسلحہ کی فراہمی بند کی جائے۔ عدالت نے اسٹیٹ کنٹرولر کی درخواست سےاتفاق کیا اور حکومتی وکیل ایٹائی ماک کو جواب داخل کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا۔ عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ حکومت نے میانمار کی ملٹری کونسل کے سربراہ کو دورے کی دعوت دے کر ’تاریخی‘ غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ حکومت کو میانمار کے ساتھ جاری فوجی تعاون اور برما کے فوجیوں کی تربیت کا سلسلہ فوری طور پرروک دینا چاہیے۔ جب تک میانمار میں فوجی آمریت کے بجائے جمہوری حکومت کا قیام عمل میں نہیں آتا کسی قسم کا دفاعی معاہدہ نہ کیا جائے۔
مگر اسرائیلی وزارت دفاع نے عدالتی فیصلے کو پاؤں کی ٹھوکر رسید کرتے ہوئے برما کے ساتھ ہرطرح کا فوجی اور دفاعی تعاون جاری رکھا ہوا ہے۔
مہلک آلات کی فراہمی
اسرائیل میں دفاعی موضوعات پر معلومات شائع کرنے والی ویب سائیٹ ’سیحا موکومیت‘ نے 19 جنوری 2017ء کو ایک رپورٹ چھاپی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ TAR یعنی ’Ideal Concept Ltd‘ بڑے فخر کے ساتھ اسرائیل کو ’Corner Shot‘ جیسی مہلک بندوقیں اور دیگر قاتل آلات فراہم کررہی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں جاری و ساری رہا جب دوسری طرف سپریم کورٹ میں یکے بعد دیگر برما کو اسلحہ کی سپلائی روکنے کے مطالبے پر مبنی کئی درخواست دائرکی گئی تھیں اور برما میں مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی سنگین پامالیوں کا پوری دنیا میں ہنگامہ برپا تھا۔
خیال رہے کہ ’Corner Shot Gun‘ یعنی ’سی ایس جی‘ اسرائیل کی اسپیشل فورس ’یمام‘ بارڈ سیکیورٹی فورسز اور جنگ کی حالت میں شہری پولیس کو کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اس جدید بندوق میں کیمرہ اور اسکرین بھی نصب ہوتی ہے جو ہدف کو نشانہ بنانے میں مدد فراہم کرنے ساتھ اس کی تصویر بھی اتار سکتی ہے۔
یہ جدید ترین رائفل اسرائیلی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل عاموس گولان کی ایجاد ہے جو انسداد دہشت گردی اسکول کا انچارج بھی رہ چکا ہے۔ اس کے علاوہ ڈووڈان یونٹ کا سربراہ اور پہلی تحریک انتفاضہ کے دوران فلسطینی مزاحمت کاروں کے تعاقب کے لیے قائم کردہ یونٹ کا بھی سربراہ رہا ہے۔
برما اور اسرائیل میں تاریخی تعلقات
عبرانی نیوز ویب پورٹل ’عفودا شحورا‘ کے مطابق اسرائیل اور برما کے درمیان دو طرفہ دفاعی اور سیاسی تعلقات سنہ 1950ء کے عشرے سے جاری ہیں۔ ارض فلسطین میں اسرائیل کے ناجائز قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد برما نے صہیونی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ ہرطرح کے تعلقات استوار کرلیے تھے۔ سنہ 1958ء میں اس وقت کے اسرائیلی آرمی چیف جنرل موشے ڈایان اور شمعون پیریز نے برما کا دورہ کیا جس کے بعد باضابطہ طور پر ینگون اور تل ابیب میں فوجی تعلقات قائم ہوئے۔
دونوں ملکوں میں سیاسی روابط سنہ پچاس کے عشرے کے اوائل میں قائم ہوگئے تھے۔ بعد ازاں فوجی سربراہان کے دوروں نے ان تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔
عبرانی نیوز ویب پورٹل کے مطابق اسرائیل نے برما کو Spitire نامی 30 جدید جنگی طیارے فراہم کیے اور ان کے 6 اسرائیلی ہوابازوں کو ان کے اڑانے کی تربیت بھی دی۔
سنہ 1962ء میں برما میں سوشلسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ملکوں میں تعلقات منطقع ہوگئے مگر سنہ 1988ء میں فوجی انقلاب کے بعد جب یورپی یونین اور امریکا نے برما پر پابندیاں عاید کیں تو صہیونی ریاست نے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرلیے تھے۔
اگست 1989ء میں مشرقی یورپی ملکوں سے دو بحری جہاز برما پہنچے جن پر ٹینک شکن میزائل اور گولہ بارود کی بھاری مقدار لادی گئی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اسلحہ اسرائیل نے لبنان جنگ کے دوران غصب کیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے لبنان سے انخلاء کے بعد یہ اسلحہ برما کو فروخت کردیا اور مشرقی یورپی ممالک کے راستے اسے ینگون بھیجا گیا۔
سنہ 1991ء میں برما کے ایک سیکیورٹی وفد نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا۔ اس دورے کے تحفے میں اسرئیل نے برما کو ’عوزی رائفل‘ نامی 500 بندوقیں مفت میں فراہم کیں۔
سنہ 1990ء کے عشرے میں اسرائیل کے تعاون سے برما نے ’روبی ساعر‘ نامی بندوق سازی کا ایک کارخانہ قائم کیا۔ یہ بندوقیں اسرائیل کی ’گلیلا 5.56‘ ملی میٹر سے کافی حد تک مشابہ تھیں۔
اعلانیہ امداد
اگست سنہ 1997ء کو دنیا بھر میں اسلحہ کی فروخت کی ایک بڑی کمپنی ’البیٹ‘ نے میانمار فوج کے زیراستعمال 36 جنگی طیاروں کو اپ گریڈ کرنے کا ٹھیکہ حاصل کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی مملکت کی طرف سے میانمار کو جنگی طیارے، گولے، توپیں، فوجیوں کو عسکری تربیت اور مہارتوں کے تبادلے کا اعلانیہ سلسلہ شروع ہوا۔
’البیٹ‘ دفاعی فرم نے اسرائیلی فوج کے پیراکی کے سسٹم کو اپ گریڈ کیا۔ رات کو دیکھنے والے آلات مہیا کیے۔ اسمارٹ بم اور لیزر گائیڈڈ بم فراہم کیے۔ اس کے ساتھ اسرائیلی کے زیراستعمال دیگر12 جنگی طیارے بھی اپ گریڈ کیے۔
سنہ 1998ء میں اسرائیلی اور میانمار کی افواج کے درمیان 155 ملی میٹر دھانے والی 16 توپوں کی خریداری کے لیے مذاکرات ہوئے۔ اسرائیل نے میانمار کو 16 جدید ترین توپیں فراہم کیں۔ اسرائیلی فوج برما کے بحری بیڑے کے تین بیڑوں کی تیاری میں بھی معاون رہا۔ یاد رہے کہ ایک بیڑے کا وزن 1200 ٹن تک جا پہنچا تھا۔
اسرائیلی فوج نے میانمار کی فوج کے جنگی بیڑوں کو 76 ملی میٹر دھانے والی توپوں کے ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی مہیا کی۔ یہ ٹیکنالوجی اسرائیل کئی سال سے ’ریشف‘ نامی بحری جنگی جہازوں میں استعمال کرتا رہا ہے۔
سنہ 2006ء میں برما کی فوج نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں اپنے دفاعی آلات اور اسلحے کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں۔ برما کی فوج کے زیراستعمال اسلحے میں اسرائیل کی ’Soltam‘ اور Elbit نامی کمپنیوں کے ہتھیار سب سے زیادہ تھے۔
یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان سنہ 2004ء میں میزائل ساززی کا ایک معاہدہ ہوا۔ بھارت کے مشرقی علاقوں میں قائم میزائل سازی کے کارخانوں سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور میزائل برما کو بھی فراہم کئے گئے۔ اسرائیل اور بھارت کے اشتراک سے تیار ہونے والے جنگی ہتھیار اور دفاعی آلات کی بھاری مقدار بھارت ہرسال برما کی فوج کو فروخت کرتا ہے۔
عبرانی ویب سائیٹس کے مطابق روہنگیا میں مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کے ناقابل تردید شواہد موجود ہونے کے باوجود اسرائیل برما کی فوج کی اعلانیہ مدد کررہا ہے۔
دہشت گردی درآمد کرنا
عبرانی ویب پورٹل ’سیحا مکومیت‘ نے 25 نومبر 2015ء کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ اسرائیلی کنیسٹ نے ایک مسودہ قانون مسترد کردیا۔ یہ آئینی بل میرٹس نامی سیاسی جماعت کی طرف سے پیش گیا گیا تھا۔ بل پیش کرنے والے ارکان کنیسٹ تمار زاندبیرگ اور Â زھاوا گال اون نے مطالبہ کیا تھا کہ پارلیمنٹ حکومت کو ان ممالک کو اسلحہ کی فراہمی سے روکے جہاں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کی جا رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں رائے شماری کی گئی تو 29 ارکان نے اس کی حمایت جب کہ 45 نے مخالفت کی۔ یوں یہ مسودہ قانون مسترد کردیا گیا۔
اس سے قبل 2 اکتوبر 2014ء کو’حومشیم، محیر ھتعشیا ھزبیت بیسرائل‘ نامی ویب سائیٹ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں اسرائیل کو دنیا بھر میں اسلحہ کی فروخت اور فوجی سازو سامان درآمد کرنے والا چھٹا بڑا ملک قرار دیا تھا۔
ایک سکے کے دو رخ
اسرائیلی امور کے فلسطینی تجزیہ نگاروں نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سےبات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار کو فوجی سازو سامان کی فروخت اسرائیل کے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اسرائیل کی تاریک اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ملک نسل پرستی کے مرتکب گروپوں، ممالک اور مسلمانوں کے قتل میں پیش پیش عناصر کا حامی و مدد گار رہا ہے۔ برما کے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے صہیونیوں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور برما دونوں ایک ڈگر پرچلنے والے ممالک ہیں۔ دونوں کی حکومتیں، فوج اور سیکیورٹی ادارے نہتے مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی سنگین پا مالیاں اور عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی میں دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں ملکوں کا ماضی اور حال ان کی مسلمان دشمنی کا گواہ ہے۔ اسرائیل کی طرف سے برما کے ملٹری ڈکٹیٹروں کو جنگی سازو سامان کی فراہمی ایسے ہی ہے جیسے اسرائیل فلسطین میں نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن عوفر نئمانان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے برما میں مسلمانوں کی نسل کشی پرخاموشی اختیار کرنے کے ساتھ برما کی فوج کو اسلحہ اور قاتل آلات مہیا کیے۔ دوسری جانب Â میانمار نے فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کو مستحکم کرنے میں اسرائیل کا عالمی سطح پر معاون رہا۔
اس طویل رپورٹ کا اختتام اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ کی اس رپورٹ سے ہوتا ہے جس میں سنہ 2013ء میں بتایا گیا تھا کہ صہیونی ریاست مین برما کو اسلحہ کی درآمد میں پیش پیش عناصر، تنظیموں ، کمپنیوں، افراد اور اداروں کی تعداد 6800 ہے۔ اس میں فوج کے سابق افسران ، جنرل، ایہود باراک کی کمپنی بھی شامل ہے۔