دیگر فلسطینی شہریوں کی طرح غرب اردن کے فلسطینی کسان جو اپنے خون پسینے سے قوم کے لیے اناج اگاتے ہیں بھی فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست کا ہدف بن چکے ہیں۔
فلسطینی کسان بجا طور پر یہ مطالبہ کررہے کہ اگر حکومت ان کے مطالبات پورے نہیں کرسکتی تو اسے یہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔ ایسی حکومت کی کوئی ضرورت نہیں جو کاشت کاروں کے بنیادی نوعیت کے ضروری مطالبات بھی پورے نہ کرسکے۔
غرب اردن کے فلسطینی کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور رام اللہ اتھارٹی نے ان کے ساتھ کئی وعدے کیے۔ کئی سال سے انہیں جعلی اور جھوٹے وعدوں کا جھانسہ دے کر وقت گذارنے کی پالیسی پر عمل جاری ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور رام اللہ حکومت نے جتنے بھی وعدے کیے ہیں، ان میں سے کوئی ایک وعدہ بھی ایفا نہیں کیا گیا۔
غرب اردن کے ایک کسان رہنما امین صوافطہ نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے محکمہ زراعت اور کسانوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کا اظہار اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سالانہ بجٹ میں کسانوں کی بہبود اور زراعت کے فروغ کے لیے صرف ایک فی صد بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تمام کسان ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اناج اگانے کے لیے مختلف اجناس پر سبسڈی دینے کے بجائے الٹا کسانوں کو عدالتوں میں گھسیٹ رہی ہے اور یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ کسان ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
غرب اردن کے ایک اور فلسطینی کسان صبحی یاسین نے کہا کہ وزارت خزانہ نے ہمارے بنیادی حقوق بھی دبا رکھے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور حکومت مالی بحران کا شکار ہے۔ اس نام نہاد مالی بحران کی آڑ میں فلسطینی ذراعت کو تباہ وبرباد کردیا گیا ہے حالانکہ زراعت ہی فلسطین میں محفظ خوراک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
حکومت عدم تعاون کی مرتکب
فلسطینی محکمہ زراعت کے ایک عہدیدار خالد منصور نے بتایا کہ حکومت کسانوں کے لیے اعلان کردہ تعاون اور سبسڈی نہیں دے رہی ہے جس کے نتیجے میں کسانوں میں مایوسی کی فضائی پائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب کسان برادری پرآئے روز نئے ٹیکسوں کا بوجھ لادا جا رہا ہے۔ کسانوں کو ٹیکسوں کی عدم ادائیگی کی آڑ میں عدالتوں میں گھیسٹ کرانہیں عزت وآبرو کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
خالد منصور کا کہنا ہے کہ فلسطینی کسانوں کو دو طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی فوج اور صہیونی آباد کار ہیں جو ان کی قیمتی زرعی زمینوں کو غیرقانونی طور پرغصب کرتے اور فصلات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی اور حکومت کی طرف سے انہیں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔ فلسطینی حکومت کی توجہ صرف زراعت پیشہ لوگوں پر بھاری ٹیکس لگانے پر مرکوز ہے۔
فلسطینی کسان یونین کے سیکرٹری جنرل جمال الدیک نے بتایا کہ ایک عام شہری اور کسان دونوں فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد سرمایہ کارانہ قانون سے بری طرح متاثر ہیں۔ یہ قانون سرمایہ کاروں کو تو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے کہ مگر اس کے حصے کا ٹیکس کا بوجھ ایک عام شہری اور کسان کے گردن پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ قانون امیروں کے لیے مفید اور غریب کسانوں اور عام شہریوں کے لیے ایک بوجھ ہے۔
ناقابل قبول عذر
فلسطینی کسان فیڈریشن کے چیئرمین عباس ملحم نے ایک پریس بیان میں بتایا کہ کسانوں اور وزارت مالیات کےدرمیان طے پائے معاہدے کے مطابق فلسطینی حکومت نے 2012ء کے بعد کسانوں کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا ،بجلی اور پانی کے بلات کی ادائی میں مدد کرنا تھی مگر فلسطینی حکومت کی طرف سے کسانوں پر صرف ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں، ان کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے جا رہے ہیں۔ فلسطینی انتظامیہ کی طرف سے ناقابل قبول عذر پیش کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی انتظامیہ کی طرف سے نابلس اور جنین کے لائیو اسٹاک اور مال مویشی پالنے والے شہریوں پر ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو عدالتوں میں گھیسٹا گیا ہے۔ فلسطینی کسان برادری حکومت کی اس غنڈہ گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کسانوں اور گلہ بانی کے شعبے سے وابستہ شہریوں کو ہرممکن تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
فلسطینی کسان یونین کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت کادعویٰ ہے کہ 2008ء کے بعد لائیو اسٹاک کے شعبے سے وابستہ شہریوں نے ٹیکس ادا نہیں کیے حالانکہ ان کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔ عباس ملحم نے حکومت کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ حکومت کسانوں اور مویشی پالنے والے شہریوں کو بنیادی سہولتیں دینے کے بجائے ان کی کھال اتارنا چاہتی ہے۔