فلسطینیوں کے مکانات مسماری کا سلسلہ ویسے تو پورے فلسطین میں جاری ہے مگر دریائے اردن کا مغربی کنارا اور مقبوضہ بیت المقدس اس کے خاص اہداف ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ فلسطینی آبادی پر ان کے اپنے وطن میں عرصہ حیات تنگ کیا جائے اور وہ مجبورا ملک چھوڑ دیں۔ فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب کم سے کم اور یہودیوں کا زیادہ سے زیادہ کیا جائے تاکہ اسرائیل دنیا کو بتا سکے کہ فلسطین میں عرب مسلمانوں کی نہیں بلکہ یہودیوں کی اکثریت ہے جب کہ فلسطینی ایک معمولی اقلیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک معمولی اقلیت کواپنی الگ ریاست کےقیام کے مطالبے کا کوئی حق نہیں۔ اس طرح مکانات مسماری کی پالیسی کے پیچھے صہیونی ریاست کا یہی مجرمانہ فلسفہ کار فرما ہے جس کی آڑ میں وہ فلسطینی وجود کو ان کے وطن سے ختم کرنا چاہتا ہے۔
لرزہ خیز اعدادو شمار
مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کا سلسلہ سنہ 1967ء میں شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ گویا جس سال اسرائیل نے ان علاقوں پر فوجی طاقت کے ذریعے ناجائز قبضہ کیا اسی سال سے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا Â سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ سنہ 1967ء کےبعد سنہ 2015ء تک صہیونی ریاست ہزاروں کی تعداد میں Â فلسطینیوں کے ہنستے بستے گھروں کو ملیامیٹ کرچکی تھی اور ان گھروں کی مسماری سے دسیوں ہزار فلسطینی بالواسطہ یا براہ راست متاثر ہوئے۔ بے گھر ہونے والے افراد میں سب سے زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بتسلیم‘ کے مطابق سنہ 2016ء کے دوران فلسطینیوں کے جتنے مکانات مسمار کیے گئے اتنے سنہ 2004ء کے بعد 2015ء تک ایک سال میں مسمار نہیں کیے گئے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق فلسطینیوں کے مکانات مسماری کا مقصد یہ ہے کہ فلسطین کو اس کے اصل باشندوں سے خالی کردیا جائے۔ ان کی املاک اور زمینوں پر قبضہ کرکے ان پر یہودیوں کے لیے عمارتیں تعمیر کی جائیں۔
القدس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2000ء سے 2015ء کے دوران اسرائیلی فوج کی جانب سے مکانات مسماری کی کارروائیوں کے نتیجے میں 346 فلسطینی بے گھر ہوئے۔ جب کہ گذشتہ برس اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کو مشرقی بیت المقدس میں 88 گھروں سے محروم کیا۔ ان میں 48 مکانات مشرقی بیت المقدس میں مسمار کیے گئے جب کہ غرب اردن میں 274 رہائشی اور 372 غیر رہائشی عمارتیں مسمار کی گئیں۔
گذشتہ برس بیت المقدس میں مکانات مسماری کے باعث 295 فلسطینی بے گھر ہوئے جن میں 160 بچے شامل تھے جب کہ غرب اردن میں مکانات مسماری کے باعث بے گھرہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 1134 ہے۔ ان میں 591 بچے شامل ہیں۔
مکانات کیسے مسمار کئے جاتےہیں؟
مکانات مسماری تو اپنی جگہ ایک جرم ہے مگر صہیونی ریاست اس سنگین جرم سے کئی اور مقاصد بھی حاصل کرتی ہے۔ ان میں شہریوں کو خوف زدہ کرنا بھی شامل ہے۔
عموما جب کسی گھر کو مسمار کرنا مقصود ہوتا ہے تو اس کے مالکان اور رہائش پذیر افراد کو ایک آدھ نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی بھی وقت اسرائیلی فوج بلڈوزروں اور بھاری مشینری کے ساتھ علی الصباح متعلقہ مکان کی کالونی یا قصبے کا محاصرہ کیا جاتا ہے۔ مکانات مسماری کے آپریشن میں فوج کی بھاری نفری تعینات کی جاتی ہے۔ فضائی نگرانی کے لیے ہیلی کاپٹروں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلح فوجی دستے مکانات کےا طراف میں تعینات کیے جاتے ہیں اور فلسطینیوں کو کسی قسم کے صدائے احتجاج بلند کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔
نوٹس جاری کرنے کے علاوہ قابض فوج فلسطینیوں کو بغیر نوٹس کے بھی گھروں سے نکال کران کے گھر مسمار کرتی ہے۔ کئی بار ایسے بھی ہوا کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے مکان میں موجود افراد کو صرف بیس منٹ کا وقت دیا۔ بیس منٹ میں شہری گھر میں موجود سامان بھی نہیں نکال سکتے۔ چنانچہ مکانات گھر میں موجود سامان سمیت ملبے کے ڈھیر میں بدل دیے جاتے ہیں۔
مکانات مسماری کب سے جاری
مکانات کی مسماری کی ظالمانہ صہیونی پالیسی 1967ء کے بعد سے مسلسل جاری ہے۔ صہیونی ریاست نے گذشتہ کئی عشروں سے مکانات مسماری کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے کئی بہانے تراشے گئے ہیں۔ بغیر اجازت تعمیر کردہ مکانات کو بھی مسمار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی گھر میں کوئی مزاحمت کار پایا جاتا ہو، یا گھر کے کسی فرد نے صہیونی فوجیوں پر حملہ کیا یا۔ کسی اسیر، کسی فدائی حملہ آور یا صہیونی فوج پر حملے کی کوشش کرنے والے فلسطینیوں کے گھر بھی مسمار کردیے جاتے ہیں۔
اگرچہ اسرائیلی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے گھروں کی مسماری کے باوجود فلسطین میں عوامی سطح پر اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ مکانات مسماری کے الٹے نتائج سامنے آئے ہیں۔
اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل جیسے جیسےانتقامی سیاست کے تحت فلسطینی مزاحمت کاروں کے گھروں کو مسمار کرتا جا رہا ہے فلسطینی اس حوالے سےاتنے ہی لا پرواہ ہو رہےہیں اور ان میں اسرائیل کے خلاف نفرت میں اور بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ نفرت انہیں صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھنے کا داعیہ بن رہی ہے۔
انتقامی سیاست
اسرائیل میں فرد کے دفاع کے لیے کام کرنے والے ادارے’ہموکید‘ کی طرف سے جاری کی گئی تازہ اعدادو شمار کے مطابق فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کا ایک حربہ’انتقامی سیاست‘ ہے۔ سنہ 2014ء کے بعد 23 مارچ 2017ء تک سرائیلی فوج نے بڑی تعداد میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے گھروں کو بلڈوز کیا ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق انتقامی سیاست کے تحت اسرائیل نے 35 مکانات مسمار کیے ہیں۔ ان میں 11 مکانات شمالی غرب اردن، 18 جنوبی غرب اردن اور 6 بیت المقدس میں مسمار کیے گئے۔
انتقامی سیاست کے تحت اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کے آٹھ مکانات سیل کیے۔ ان میں تین غرب اردن کے جنوب میں اور پانچ مقبوضہ بیت المقدس میں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے 99 گھروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں فلسطینی مزاحمت کاروں کی ملکیت قرار دیا۔ ان میں 15 شمالی غرب اردن، 66 جنوبی علاقوں اور 18 مشرقی بیت المقدس میں واقع ہیں۔
بیت المقدس میں مکانات مسماری
اسرائیلی فوج کی طرف سے سنہ 1967ء کےبعد مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کے مکانات مسماری پر خصوصی توجہ دی گئی۔ یہودی آباد کاروں اور یہودی تنظیموں کو بیت المقدس میں دھڑا دھڑ مکانات کی تعمیرات کی اجازت دی گئی جب کہ فلسطینیوں پر مکانات کی تعمیر پرکڑی شرائط عاید کی گئیں۔
صہیونی ریاست نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مشرقی بیت المقدس میں فلسطینی آبادی پرعرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے ان کے گھروں کی مسماری اور نئے مکانات کی تعمیر پرپابندی لگائی۔
صہیونی حکام کی طرف سے غرب اردن کے سیکٹر ’C‘ میں 806 اور مشرقی بیت المقدس میں 153 مکانات مسمار کیے اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ مکانات اسرائیلی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر تعمیر کیے گئے تھے۔ اس طرح سیکٹر سی میں 1165 فلسطینیوں کو بے گھر اور Â بیت المقدس سے 227 شہریوں کو گھروں سے محروم کیا گیا۔
معاشی نقصانات
مکانات مسماری کے باعث فلسطینی شہریوں کو نہ صرف گھر سے محروم کردیا جاتا ہے بلکہ فلسطینی شہریوں کو بھاری مالی نقصان سے دوچار کیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مکانات کی مسماری سے اسرائیلی ریاست 17 لاکھ امریکی ڈالر کے مساوی معاشی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ جب کہ غیر رہائشی املاک کی مسماری سے فلسطینی 10 لاکھ ڈالر کے نقصان کا سامنا کر چکے ہیں۔
دیگر معاشی نقصانات کے ساتھ ساتھ صہیونی انتظامیہ مکانات خالی نہ کرنے والے فلسطینیوں کو بھاری جرمانوں کی شکل میں بھی اقتصادی بحران سے دوچار کرتی ہے۔ بھاری جرمانے عاید کرکے فلسطینیوں کو اپنے مکانات خود مسمار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
بیت المقدس میں ایک گھر کی تعمیر کی اجازت لینا دنیا کے انتہائی مہنگے ملکوں میں ایک مکان تعمیر کرنے کے برابر ہے کیونکہ فلسطینیوں کو بھاری رقوم کی وصولی کے بعد صرف مکان کی تعمیر کی اجازت دی جاتی ہے۔ فلسطینیوں کی مکانات کی تعمیر کے لیے دی گئی درخواستیں آٹھ اور 12 سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ اتنا عرصہ گذرنے کے بعد مکان کی ضرورت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر بیت المقدس میں کسی فلسطینی کو 110 مربع میٹر کی جگہ پر مکان تعمیر کرنا ہے اسے کم سے کم 70 ہزار امریکی ڈالر کے عوض فیس ادا کرنا ہوتی جب کہ دیگر ٹیکس اس کے سوا ہیں۔
عالمی قوانین کی پامالی
فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری عالمی قوانین کی رو سے ایک سنگین جرم ہے۔ عالمی ادارے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کو نہتے شہریوں کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
سنہ 2004ء میں اقوام متحدہ نے Â قرار داد 1544 منظور کی۔ اس قرارداد میں سلامتی کونسل نے اسرائیل سے Â مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کا سلسلہ بند کرتے ہوئے عالمی قوانین کا احترام یقینی بنائے۔
جنیوا معاہدے کے آرٹیکل 53 میں واضح الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ کسی ایک طبقے کو اجتماعی سزا دینے کے لیے اس کے گھروں کی مسماری کا کوئی جواز نہیں۔
صہیونی ریاست فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کے لیے سنہ 1945ء میں منظور کردہ برطانوی استبدادی دور کے قانون 119 کے آرٹیکل ایک کا سہارا لیت ہے۔ اس قانون کے تحت ریاست ہنگامی حالات میں مکانات مسمار کرنے کی مجاز ہے۔