اس تجزیہ نگار نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا : شاید میری یہ باتیں کڑوی ہوں، لیکن یہ باتیں اس موضوع پر کئی مہینے یا شاید اس سے بھی زیادہ فکر کا نتیجہ ہیں۔ اسرائیلی ماہر کے مطابق : اسرائیل کا انٹیلی جنس نیٹ ورک جو کچھ شام میں انجام پایا ہے اسکو صحیح طور پر درک نہیں کر سکا اور شام میں ایران کے 2012 کے بعد کی موجودگی کو صحیح انداز میں پیش بینی نہیں کر سکا۔ ہم شکست کھا چکے ہیں چونکہ ابھی تک ہم لبنان کے ساتھ ہونے والی پہلی جنگ کے نتیجہ میں پھنسے ہوئے ہیں؛ ہم شام میں مداخلہ کر سکتے تھے تاکہ مخالفین دمشق کے جنوبی علاقہ پر قبضہ کر سکتے نہ یہ کہ ہم دور سے بیٹھ کر داعش اور القاعدہ سے آس لگائے بیٹھتے اور ان کے قبضہ کرنے کا خواب دیکھتے۔ اس تجزیہ نگار کے مطابق : شام میں اب کوئی فری آرمی موجود نہیں ہے، اب باغیوں کی شام میں کوئی خاص سرگرمی باقی نہیں رہی اور وہ اپنی مکمل شکست کیلئے صرف وقت گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
کنسرٹیوم نیوز کے مطابق سابقہ برطانوی ڈیپلومیٹ آلسٹر کروک نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ نزدیک میں اسرائیل کا ایک بلند پایہ وفد واشنگٹن گیا۔ اس کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو اپنی گرمیوں کی چھٹیوں میں روسی صدر ولادیمیر پوٹین سے ملاقات کیلئے سوچی گیا۔ ایک اسرائیلی حکومتی عہدہ دار کے مطابق (اخبار اوشلیم پوسٹ کے حوالے سے) نیتن یاھو نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران شام میں اپنی کاروائیوں سے باز نہ آیا تو دمشق میں صدارتی محل پر ہوائی حملے کئے جائیں گے اور اس کے نتیجے میں آستانہ میں ہونے والے صلح مذاکرات ناکام کر دیئے جائیں گے۔
روس میں چھپنے والے اخبار روزنامہ یراودا نے لکھا ہے : عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم سخت خوفزدہ اور ڈرا ہوا تھا، اس نے پوٹین سے کہا کہ اگر ایران کو روکا نہ گیا تو دنیا کو آخرالزمان کا مشاہدہ کرنا پڑے گا۔
لکھاری کے مطابق، حقیقت کیا ہے ؟ اگر پراودا اخبار کی یہ خبر صحیح ہے یا اگر صحیح نہ بھی ہو (اگرچہ اسرائیل کے تجزیہ نگار اپنی رپورٹوں میں اس بات کی تائید کر رہے ہیں) لیکن پھر بھی اسرائیلی موثق ذرائع کے مطابق اسرائیل کی بات کو واشنگٹن اور سوچی میں سنا گیا ہے لیکن اس سے وہ کچھ نتیجہ نہیں لے سکا، در حقیقت اسرائیل اکیلا رہ چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل نہ صرف سوریہ سے ایران کے نکل جانے کا مطالبہ کر رہا ہے بلکہ وہ اس بات کی ضمانت دینے پر بھی راضی ہے کہ مستقبل میں ایران شام میں اپنا اثر و رسوخ باقی رکھے۔ اسرائیل کو اب جا کر سمجھ آئی ہے کہ وہ سوریہ میں غلط فریق کی حمایت کر رہا تھا اور اس کے نتیجہ میں اب کھیل اس کے ہاتھ سے نکل چکی ہے اور اب اس کی ایسی حیثیت نہیں رہی کہ کسی چیز کا مطالبہ کر سکے۔ اسرائیل کے پاس سوائے جولان لائن کے اور کچھ نہیں رہ گیا اور اس کی یہ آرزو بھی پوری نہیں ہو گی کہ وہ عراق اور شام کا بارڈر بند کرا دے یا پھر اسرائیلی فضائیہ کی زیرنگرانی قرار دے سکے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کا سابقہ مشاور ڈانیل لیوی اس بارے میں لکھتا ہے : اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو نے امریکی یھودیوں کے حمایت کو حاصل کرنے کیلئے تاکہ اسرائیل امریکہ نامتوازن روابط کو بہتر کیا جاسکے ایک منصوبہ بندی شدہ جوا کھیلا، نیتن یاھو کا کردار ایک آیڈیالوجیک لیڈر والا کردار تھا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اب یہ علاقہ تبدیل ہو چکا ہے اور اب یہ ریجن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مزید جنگ کو جاری رکھا جا سکے۔ اسرائیل اکیلا ہے اور سعودی عرب کہ جو اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے کمزور ہو چکا ہے اور اب یہ بات سب پر واضح ہے کہ سعودی عرب کا کردار بہت محدود ہو چکا ہے۔