بے روزگاری کے عذاب سے تنگ فلسطینی محنت کشوں کی کوشش ہوتی ہے وہ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا قصد کریں۔ سنہ اڑتالیس کےدوران اسرائیل کے تسلط میں آنے والے شہروں میں نسبتا کام کاج کے مواقع تو موجود ہوتے ہیں مگر غرب اردن یا دوسرے علاقوں سے فلسطینیوں کا وہاں پہنچنا ، کام حاصل کرنا اور وہاں پر قیام کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔
چنانچہ فلسطینی محنت کشوں کے خون پسینے کا کاروبار کرنے والے صہیونی قدم قدم پر انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔
غرب اردن کے شمالی شہر نابلس کے 25 سالہ عنان سہیل کو بار بار صہیونی پرمشن ایجنٹ بلیک میل کرتے رہے۔ اس نے سنہ 1948ء کے علاقوں میں کام کاج کے لیے اجازت نامہ لینے کی جب بھی کوشش کی تو اسے باقاعدہ ایک جرائم پیشہ اور منظم مافیا سے واسطہ پڑا۔
عنان سہیل غرب اردن کے ہزاروں نوجوانوں میں سے ایک ہیں جنہیں قدم قدم پر صہیونی ٹریول ایجنٹوں، پرمشن ایجٹوں اور اجازت نامے جاری کرنے والے مافیا کے ہاتھوں بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ان نام نہاد ’پرمشن ایجنٹوں‘ کی جانب سے فلسطینی محنت کشوں کی بے بسی کا نہ صرف مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ انہیں سنہ1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں داخلے اجازت نامے جاری کرنے کی آڑ میں اس قدر ستایا جاتا ہے اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔
اجازت نامے جاری کرنے کی آڑ میں پہلے ہی بے روزگاری کے ستائے فلسطینیوں سے لوٹ مار کی جاتی ہے۔ لیبر یونین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بے ضمیر صہیونی ایجنٹ غرب اردن کی دگر گوں معیشت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں کو لوٹ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق قابض صہیونی انتظامیہ کی طرف سے مقرر کردہ پرمشن ایجنٹ فلسطینیوں کی جیبیں خالی کرنے میں سرگرم ہیں۔
سال 2016ء کے دوران غرب اردن کے فلسطینیوں نے اجازت ناموں کے حصول کے عوض صہیونیوں کو تین کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم ادا کی۔ یہ رقم سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی کل مزدوری کا 17 فی صد ہے جو انہوں نے اس عرصے کے دوران کمائی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی محنت کشوں کے پاس مزدوری کے لیے متبادل راستوں کے نہ ہونے کے باعث انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اور صہیونی کالونیوں میں کام تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صہیونی کالونیوں میں کام کی اوسط اجرت غرب اردن کے علاقوں میں اوسط اجرت سے دو گنا زیادہ ہے۔
صہیونی کالونیوں میں کام کاج کرنے والے غرب اردن کے محنت کشوں کی تعداد 1 لاکھ 39 ہزار 600 ہے۔ یہ اعدادو شمار 2017ء کے پہلے چا ماہ کے ہیں۔
2016ء کے آخری چار ماہ میں فلسطینی محنت کشوں کی تعداد 1 لاکھ 28 ہزار 800 تھی اور ان کی یومیہ اوسط اجرت 60 ڈالر تھی۔
بے روزگاروں کی بلیک میلنگ
فلسطین کی جنرل لیبر فیڈریشن کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا Â گیا ہے کہ غرب اردن کے شہروں میں مقامی مزدوروں کے پاس کام کاج کا کوئی موثر ذریعہ نہیں۔ غرب اردن کی موجودہ اقتصادی اور سیاسی بد حالی نے بے روزگاری میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق غرب اردن میں اقتصادی اور سیاسی ابتری کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مقامی آبادی صہیونی ریاست کے اندر آنے والے شہروں میں کام کاج کی تلاش کوشش کرتی ہے۔ مگر اسرائیل میں کام کاج کے لیے داخل ہونا سوچ سے زیادہ مشکل ہے۔ صہیونی پرمشن ایجنٹ فلسطینی شہریوں کی مجبوریوں اور ان کی بے روزگاری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں بلیک میل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
کسی بھی فلسطینی کو اجازت نامے کے حصول کے لیے کئی کئی مراحل اور مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے۔ ہرمرحلے پرانہیں صہیونی حکام اور ان کے مقرر کردہ ایجنٹوں کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔ تب جا کر کہیں کوئی اجازت نامہ مل پاتا ہے۔
اجازت نامے
چالیس سالہ ابو مصعب نے بتایا کہ وہ 10 سال سے اندرون فلسطین کام کرتا ہے۔ وہ ہر ماہ Â اجازت نامے کی تجدید کے لیے تقریبا 2500 شیکل کی خطیر رقم ادا کرتا ہے جبکہ مجموعی طور پر اسے 8500 شیکل کی رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔
ابو مصعب نے بتایا کہ اسرائیل کے زیرتسلط علاقوں میں کام تو مل جاتے ہیں مگر وہاں تک پہنچنے کے لیے اجازت ناموں کے حصول میں کڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر فلسطینی شہری کو کم سے کم 1000 شیکل کی رقم ادا کرنا پڑتی ہے جب کہ پرمشن ایجنٹ اس کے علاوہ بھی رقم وصول کرتے ہیں۔ اس طرح ایک ایک ایجنٹ کو 1500 شیکل تک منافع حاصل ہوتا ہے۔
ابو محمد نامی ایک شہری نے بتایا کہ اسے اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے ایک زرعی فارم کے مالک کو 2700 شیکل اور ایک پرمشن ایجنٹ کو 200 شیکل کی رقم ادا کی۔ اس کے علاوہ کسی بھی فلسطینی کو اجازت نامے کے حصول کے لیے اسرائیل کی نیشنل انشورنس فیس اور دیگر کئی ٹیکس اور فیسیں بھی ادا کرنا ہوتی ہیں۔