فلسطین کی تاریخ میں 14 جولائی کو ایک تاریک سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس روز اسرائیلی فوج نے فلسطینی عوام کو قبلہ اوّل میں عبادت جیسے دیرینہ اور بنیادی حق سے محروم کردیا۔ مگر ساتھ ہی اس واقعے نے فلسطینی قوم کو باہم متحد ہونے کا ایک نیا موقع فراہم کیا۔ چنانچہ چودہ جولائی کے واقعے کے بعد اہالیان القدس تمام گروہی، نسلی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قبلہ اوّل کے دفاع کے لیے تن من دھن کی قربانی دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یوں انہوں نے چودہ دن تک قبلہ اوّل کے دفاع اور صہیونی فوج کی رعونت کے خلاف جس دلیرانہ جذبے کا مظاہرہ کیا اس کی مثال کم ہی ملے گی۔
تجزیہ نگار نے عدنان ابوعامر سے بھی یہی سوال پوچھا کہ آیا وہ کیا وجہ تھی کہ جس نے اہالیان القدس کو قبلہ اوّل کے دفاع کی کامیاب جدو جہد کا موقع فراہم کیا۔
عدنان ابو عامر نے کہا کہ بیت المقدس کے باشندوں نے اپنی تمام تر توجہ قبلہ اوّل کے دفاع پر مرکوز کرتے ہوئے کامیابی اور فتح مندی کے سابقہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ کی حرمت اور تقدس کے دفاع کو اپنا اولین ہدف بنایا اور اس کے لیے دن رات ہمہ تن گوش ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ بیت المقدس کے باشندوں کی کامیابی کی اہم وجہ ان کی صفوں میں اتحاد ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے قبلہ اوّل کے لیے دن رات احتجاج جاری رکھا۔ دن رات اور ہر طرح کے موسم میں قابض صہیونیوں کے خلاف الجھنے کی روایت برقرار رکھی۔ اگرچہ فلسطینی قوم کی طرف سے اسرائیل پر ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی مگرانہوں نے دشمن کے ساتھ قبلہ اوّل پرڈھونگ مذاکرات مسترد کردیا۔
ابو عامر نے بتایا کہ اہالیان القدس کی قبلہ اوّل کے دفاع کی کامیاب تحریک کے پیچھے ان کی مسجد اقصیٰ سے والہانہ محبت اور عقیدت ہے۔ انہوں نے دفاع قبلہ اوّل پر کسی سودے بازی کے لیے فلسطینی حکومت کا دباؤ بھی مسترد کردیا۔ انہوں نے اپنی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ گروہی، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی اخلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف خود کو الاقصیٰٗ کے پرچم تلے متحد رکھا۔
واضح Â ویژن
فلسطینی تجزیہ نگار صلاح الدین العوادہ نے کہا کہ اہالیان القدس کی قبلہ اوّل کے دفاع کی تحریک کی کامیابی کے دیگر عوامل میں ان کا ’واضح ویژن‘ بھی شامل ہے۔ اہالیان القدس کے قبلہ اوّل کے حوالے سے واضح ویژن میں فلسطینی اتھارٹی کے مفادات اور فلسطینی قوم کی اجتماعی مزاحمتی سوچ میں کوئی تضاد نہیں تھا۔
العواودہ کا کہنا ہے کہ اہالیان القدس کا اللہ کے ساتھ تعلق بھی غیرمعمولی حد تک مضبوط ہے۔ اہالیان القدس قبلہ اوّل کے ساتھ پوری طرح وابستہ، شہادت کے جذبےسے سرشار، قبلہ اوّل اور تمام فلسطینی مقدسات کے لیے مر مٹنے والے ہیں۔ ان کی قیادت ایسے اہل ایمان اور اہل تقویٰ علماء، دعاۃ اور مبلغین کے ہاتھ میں ہے جو پوری مسلم امہ کی قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ الاقصیٰ بیت المقدس کے باشندوں کے لیے اہم ترین قضیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس کے باشندوں نے تمام تر فروعی، نسلی اور مسلکی تعصبات سے بالا تر ہوکر قبلہ اوّل کے دفاع کے لیے ہمہ جہت تحریک چلائی۔
ان کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کے باشندوں کے ذہنوں میں یہ شعور پوری طرح راسخ ہے کہ وہ قبلہ اوّل کے دفاع کی فرنٹ لائن ہیں اور پوری مسلم امہ کی طرف سے دفاع قبلہ اوّل کی نیابت کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے فتح یا شہادت کے نعرے کے ساتھ قبلہ اوّل کا دفاع شروع کیا۔ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں۔ انہیں ہرصورت میں فتح حاصل کرنی ہے۔ اس ضمن میں عالم اسلام کی طرف سے ان کی حمایت اہالیان القدس کے ولولوں اور جذبہ شہادت میں اضافے کا موجب بنی۔ ان کے حوصلے بلند ہوئے۔
اولین مسئلہ
تجزیہ نگار ڈاکٹر جمیل حمامی نے فلسطینی قوم کو قبلہ اوّل کے کھولے جانے اور اسرائیل کی طرف سے پابندیاں اٹھائے جانے کی مبارک باد پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مبارک باد ان تمام فلسطینی شہریوں کے لیے جنہوں نے قبلہ اوّل کے دفاع کے لیے القدس کا دورہ کیا۔
حمامی کا کہنا تھا کہ بیت المقدس کی کامیابی کی اہم بنیادوں میں ان کا یہ شعور کہ الاقصیٰ ان کا اولین مسئلہ ہے۔ ان کے دلوں میں اس کا ایک غیرمعمولی مقدس روحانی مقام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہالیان القدس نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ الاقصیٰ ہماری تاریخ، ہماری تہذیب، ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ پیغام کہ قبلہ اوّل سرخ لکیر ہے جس کو پامال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں تجزیہ نگار الحمامی کا کہنا تھا کہ اہالیان القدس نے اپنے قول وعمل سے صہیونی دشمن کو یہ پیغام دیا ہے کہ الاقصیٰ کے ساتھ کھلواڑ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس کے سنگین نتائج و عقواب کو سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا۔
جمیل حمامی نے کہا کہ اہالیان القدس نے قبلہ اوّل کے دفاع کے لیے اپنی صفون میں مثالی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ اہالیان القدس نے اپنی دینی قیادت پربھی بھرپور اعتماد کا اظہار کیا جس کا فلسطینی قوم کے عزم ثبات اور استقلال پر گہرا اثرو رسوخ ہے۔
القدس کی دینی قیادت نے یہ ثابت کیا ہے کہ عوام الناس جتنے علماء کے قریب ہوں گے، فتح ونصرت کا فاصلہ اتنا ہی کم ہوگا۔