فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کی پٹی کے عوام کو سیاسی انتقامی کی بھینٹ چڑھانے کا عمل ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا جب اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سےغزہ کے عوام پر معاشی پابندیاں مسلط کیے گیارہ سال بیت گئے ہیں۔
حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے ایک انتقامی اعلان میں دھمکی دی تھی کہ وہ غزہ کے خلاف ’غیرمسبوق‘ اقدامات کریں گے۔ انہوں نے اہالیان غزہ کے خلاف جہاں کئی دوسرے غیرمسبوق اور غیرمعمولی انتقامی اعلانات کیے ان میں ایک اقدام غزہ کے بیمار شہریوں پر سفری پابندیوں کا تھا۔ صدر عباس کے حکم پرغزہ کے مریضوں پر علاقے سے باہر سفر کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت کے بحران کو مزید گھمبیر بنانے کے لیے اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ کے عوام کی بجلی Â بہ تدریج کم کرنا شروع کی گئی۔ بجلی کی بندش اور سفری پابندیوں نے مل کر غزہ کے عوام بالخصوص بیماروں کو سنگین Â بحران اور مشکلات سے دوچار کیا۔ حتیٰ کہ کئی مریض جن کا غزہ میں علاج ممکن نہیں رہا تھا کی جانوں کو خطرات لاحق ہوگئے۔
اسرائیلی پابندیوں کے اثرات
فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے 2006ء میں اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ ان پابندیوں کے پیچھے صہیونی ریاست کی نسل پرستانہ سوچ اور غزہ کے عوام کو جمہوریت کی راہ پر چلنے کی سزا دینا تھا۔ گذشتہ گیارہ برسوں سے غزہ کے عوام پر عائد پابندیوں میں مریضوں پر سفری پابندیاں بھی شامل تھیں۔ اسرائیل نے غزہ اور غرب اردن کےدرمیان زمینی آمد ورفت کے لیے بیت حانون گذرگاہ کو بند کردیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اسپتالوں تک غزہ کے مریضوں کی رسائی روک دی گئی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ غزہ کے اسپتالوں کو ادویہ اور طبی سامان کی سپلائی بھی روک دی گئی۔
غزہ کے مریضوں کو غرب اردن یا اردن کے اسپتالوں تک رسائی کے لیے اگر اجازت دی بھی گئی تو اس کی راہ میں ایسی کڑی اور ناقابل قبول شرائط عائد کی گئی تھیں کہ ان شرائط پرعمل درآمد بجائے خود ایک مصیبت سے کم نہیں۔ ایک دن کے سفر کو کئی کئی روز کے طویل اور صبر آزما سفر میں تبدیل کردیا گیا۔ حتیٰ کہ غزہ کے مریضوں کو بلیک میل کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
فلسطینی اتھارٹی کی سفری پابندیاں
غزہ کے عوام پر صہیونی ریاست کی مسلط کردہ ظالمانہ پابندیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی نے نے غزہ کے لوگوں کے مصائب وآلام میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی۔ نام نہاد فلسطینی اتھارٹی نے پہلے تو غیر اعلانیہ انداز میں غزہ کے عوام کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ غزہ کے مریضوں کے علاقے سے باہر قائم کردہ اسپتالوں علاج کے Â تمام اخراجات اٹھانے سے صاف انکار کردیا۔ غزہ کے اسپتالوں کو طبی سامان اور ادویہ کی فراہمی روک دی جس کے نتیجے میں غزہ میں صحت کے شعبے کو بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بحران نے غزہ کے کئی مریضوں کی جان لے لی جن میں تین کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی پالیسی اور پابندیوں کے نتیجے میں ہزاروں مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ادویہ کی قلت کا بحران
غزہ میں ادویہ کے مرکزی ذخیرے میں دواؤں کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ فلسطینی محکمہ صحت کے مطابق غزہ کے اسپتالوں میں 170 اقسام کی ادیات ختم ہوگئیں جو کہ کل ادویہ کا 33 فی صد ہیں۔ اس وقت بھی بنیادی انسانی ضرورت کی 37 اقسام کی ادویہ جن میں کینسر کے ادویات بھی شامل ہیں ناپید ہیں۔
اس کے علاوہ غزہ میں کینسر اور دیگر جان لیوا امراض کی 70 اقسام کی ادویات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’یورو مڈل ایسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر غزہ کی پٹی میں محکمہ صحت کو ادویہ کا40 فی صد بحران رہا۔ غزہ میں ادویہ کے علاوہ 270 اقسام کے طبی سامان کی شدید قلت رہی۔ اس سامان میں انتہائی نگہداشت وارڈ، ڈائلائسز، فسٹ ایڈ اور آپریشن تھیٹر کے شعبے میں استعمال ہونے والی اشیاء شامل ہیں۔
مریضوں کی تعداد
غزہ کے اسپتالوں میں زیرعلاج ہزاروں مریضوں میں اوسط اندازے کے مطابق مقامی اسپتالوں میں علاج کی سہولیات نہ ہونے کے باعث ہر ماہ 1000 مریضوں کو علاقے سے باہر منتقل کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ کے مریضوں کو علاج کی سہولت دینے پر عائد پابندیوں کے باعث تقریبا 50 فی صد مریضوں کی بیرون غزہ منتقلی میں مشکلات درپیش ہیں جس کے نتیجے میں 20 ہزار مریضوں کو غزہ سے باہر کے اسپتالوں میں علاج کے لیے لے جانے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق’اوچا‘ کے مطابق اسرائیلی اور فلسطینی اتھارٹی کی پابندیوں کے باعث ذغہ کے 240 بچوں اور ہزاروں بڑی عمر کے مریضوں کے علاج معالجے میں مشکلات درپیش ہیں۔
رپورٹ کے مطابق غزہ کے 321 مریضوں کو بنیادی نوعیت کے علاج کی ضرورت ہے جب کہ 240 کینسر کے مریض بچے شامل ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں میں غزہ کو ایندھن کی فراہمی کی پابندی بھی شامل ہے۔
رام اللہ اتھارٹی کی انتقامی سیاست اور اسرائیلی ریاست کی Â ظالمانہ پالیسی کے باعث غزہ کے اسپتالوں کو جنریٹروں کو چالو رکھنے کے لیے ایندھن کی سپلائی بند کردی گئی جس کے Â نتیجے میں صحت کے بحران میں اضافہ ہوا۔