الخلیل – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) ویسے تو پورا فلسطین اپنے قدرتی حسن اور جاودوئی رنگا رنگی کے اعتبار سے قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے مگر اس کے بعض قصبوں کا نظارہ فردوس بریں سے کم نہیں۔
اپنے قدرتی حسن اور خوبصورتی کی بناء پر دل موہ لینے فلسطینی قصبوں اور شہروں میں ایک نام ’بتیر‘ قصبے کا ہے۔جغرافیائی محل وقوع کےاعتبار سے یہ قصبہ مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہروں الخلیل اور بیت لحم کو باہم ملانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔ الخلیل سے بیت لحم کی طرف جاتے ہوئے الخضر قصبے کے بعد مغرب کی جانب چند کلو میٹر کے فاصلے پر خوبصورت قصبوں کا ایک گل دستہ آباد ہے۔ قصبوں کا یہ گلدستہ بتیر، حوسان ، نحالین اور الوجہ پر مشتمل ہے۔ القدس کے خوبصورت پہاڑ ان قصبوں کے قدرتی حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔
بتیر کے داخلی راستے پر ایک گنجان آباد بستی قائم ہے جہاں اوپر تلے لوگوں نے گھر بنا رکھے ہیں۔ بتیر کے مرکز تک پہنچنے کے لیے نشیب کی طرف وادی النسور سے گذرنا ہوتا ہے۔ یہاں فلسطینیوں کے لہلہاتے کھیت، سرسبزو شاداب فارمز اور پھلوں سے لدے پھل دار درخت ہرآنے والے کا استقبال اور جانے والے کو جھک کو رخصت کرتے ہیں۔
زمین پر اللہ کی جنت
بتیر کی ایک خاصیت یہ ہےکہ اس میں قدیم کنعانی دور کی پانی نالیاں موجود ہیں۔ ان نالیوں سے بہتا پانی کانوں میں ایک عجیب رس گھولتا ہے۔ ان پانی کی نالیوں کے اطراف میں زیتون، انجیر، سیب، انگور کے درختوں کےباغات ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پودینے، دھنیا، Â مٹر،لوبیا، کھیرا اور کئی دوسری اقسام کی سبزیاں اور پھل قصبے کو جنت کے ایک ٹکڑے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تھوڑا اور آگے بڑھنے پر قدیم رومن دور کی عمارتیں اور اس ن کے اطراف میں بیچ جگہ جگہ کھیت، فصلیں، پھل دار پودوں کے باغات اور ان کے بیچوں بیچ بہتی پانی کی چھوٹی چھوٹی نہریں ہرآنےوالے پر سحر طاری کرنے کے لیے کافی ہیں۔
مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ بتیر قصبے کی خوبصورت کی سب سے بڑی وجہ یہاں پر پانی کا وافر مقدار میں پایا جانا ہے۔ پانی کےنتیجے میں ہرطرف ہرلیالی ہے۔ اس کے علاوہ قدیم دور کی تاریخی عمارات، وادیاں، وادی النسور جو سات کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے غیر معمولی خوبصورت ہے۔ اس وادی کا رقبہ 8 ہزار دونم سے زیادہ Â ہے۔ سنہ 1905ء میں یہاں عثمانی حکومت نے شمالی اور جنوبی فلسطین کے درمیان ایک ریلوے لائن بچھائی تھی۔ یہ ریلوے لائن آج بھی موجود ہے۔
بتیر کی وجہ تسمیہ
فلسطین کے تاریخی مصادر میں اس قطعہ فردوس بریں (بتیر) کے کئی نام سامنے آتے ہیں۔
ان میں سب سے مشہور یہ ہے کہ اس قصبے کا نام کنعانی دور میں ’بیت ایر‘ رکھا گیا تھا۔ عربی میں اسے ’بیت الطیر‘ یعنی پرندوں کا گھر کہا جاتا ہے۔ شاید اس Â قصبے کا نام پرندوں کی نسبت سے اس لیے رکھا گیا کہ یہاں النسر یعنی شاہین باز وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ اس قصبے کی وادی النسور کو بھی شاہی ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
یہ قصبہ بہت سی تاریخی عمارات کا بھی امین ہے۔ یہاں پر رومن، کنعانی اور اس کے بعد کے ادروار میں بنائی گئی عمارتوں کی باقیات، پتھروں سے تیار کردہ راہ داریاں، پانی کی نہریں، پرانے گھڑیال، قلعے بالخصوص ’بث ثیر‘ نامی قلعہ سب سے زیادہ مشہور ہے۔
مقامی فلسطینی 73 سالہ الحاج محمد القطوش نے کہا کہ بتیر قصبے کے پھل، سبزیاں اور فصلیں پورے فلسطین میں اپنے منفرد ذائقے کی بدولت مشہورہیں۔ یہاں کے مردو زن سب مل کر اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ عورتیں پھلوں کے ٹوکرے بھر کر بیت المقدس لے جاتی اور وہاں دکانداروں کو فروخت کرتی ہیں اور اسے کوئی عار نہیں سمجھا جاتا۔
انہوں نے بتایا کہ قیام اسرائیل کے بعد صہیونی ریاست نے دوسرے فلسطینی علاقوں کی طرح بتیر قصبے کا بھی 870 دونم رقبہ اس کے مالکان سے چھین لیا۔
بتیر بلدیہ کے چیئرمین اکرم بدر کا کہنا ہے کہ یہ قصبہ اپنے قدرتی حسن اور تاریخی Â مقامات کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے اسے اتنی اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی تاریخ وثقافت اور قدرتی حسن کو قائم رکھنے کے لیے اس کی ثقافت کو محفوظ کرنا ضروری ہے۔
اکرم بدر کا کہنا تھا کہ 21 جون 2014ء کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس وثقافت ’یونیسکو‘ نے بتیر قصبے کو بین الاقوامی تاریخی ورثے کاحصہ قرار دیا تھا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بیتر قصبے کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک ثقافتی تقریب منعقد کی گئی جس میں اس قصبے کے مسجم ڈھانچے کی تاج پوشی کی گئی تھی۔