غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے ساحلی علاقے غزہ کی پٹی کا شمار نہ صرف دنیا کے گنجان آباد علاقوں میں ہوتا بلکہ یہاں باشندوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکررہی ہے۔ غربت فقر کا عالم یہ ہے کہ غربت سے نیچے جانے والے خاندانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق موجودہ ماہ صیام اہالیان غزہ کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو اسرائیل کی طرف سے گیارہ سال سے علاقے پر عائد اقتصادی پابندیاں ہیں۔ آئے روز ان پابندیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر مستزاد فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی پالیسی اور مصر کی طرف سے غزہ کی بین الاقوامی رفح گذرگاہ کی مسلسل بندش ہے۔ ریہی سہی کسرعرب ممالک کی طرف سے قطر پرعائد پابندیوں نے نکال دی ہے کیونکہ قطر واحد عرب ملک ہے غزہ کی پٹی میں غریب اور نادار شہریوں کی مدد کر رہا ہے۔غزہ کے شہری غربت کے ہاتھوں سخت تنگ ہیں اور وہ اس کیفیت کی ذمہ داری اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی پربھی عائد کرتے ہیں۔
ایک خاتون نادیہ نے بتایا کہ اسے یاد پڑتا ہے کہ جب سے اس نے روزے رکھنا شروع کیے ہرآنے والا ماہ صیام ان کے خاندان کے لیے پہلےکی نسبت مشکل ثابت ہوا۔ اس نے استفسار کیا کہ کیا غزہ کے بے سہارا لوگوں اور روزہ داروں کی مدد کرنے والے ایک عرب ملک کادوسروں کی جانب سے بائیکاٹ ہماری معیشت تنگ کرنے کی سازش نہیں۔
نادیہ جو پانچ بچوں کی ماں ہیں کا شوہر بیمار ہے اور کوئی کام کاج نہیں کرسکتا۔ اس کا کہنا ہے کہ میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے روزانہ اہل خیر کی طرف دیکھتی ہیں۔ گذشتہ 10 سال سے جاری ناکہ بندی کی مصیبتیں اپنی جگہ مگر رواں ماہ صیام ان پربہت گراں گذرا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل نے مل کر غزہ کی پٹی کے لیے خوراک کی فراہمی روک رکھی ہے۔ فلسطین کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کم کردی گئی ہیں۔ Â شہداء اور اسیران کے اہل خانہ کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیا گیا ہے۔
ستم رسیدہ نادیہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مصیبت کے بارے میں بتانے سے قاصر ہے۔ روتے ہوئے اس نے کہا کہ ہمارے پاس بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کوئی انتظام نہیں میں جاؤں تو کہاں جاؤں؟ امداد فراہم کرنے والی تنظیموں کی گردن دبوچ کر غزہ کے غریب عوام کا آخری سہارا بھی ان سے چھین لیا گیا ہے۔
غربت کے باعث غزہ کی نادیہ ہی اس پریشانی سے دوچار نہیں بلکہ غزہ کی نصف آبادی یعنی 10 لاکھ افراد ایسی ہی اندوہنا غربت کا سامنا کررہے ہیں۔ جب سے غزہ میں فلاحی منصوبوں کے لیے کام کرنے والے اداروں کے خلاف شرانگیز مہم شروع کی گئی ہے اہالیان غزہ کی معاشی مشکلات اور بڑھ گئی ہیں۔
ایک دوسری خاتون نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے شرط پر کہا کہ ان کے خاندان کو ہرسال ماہ صیام میں خصوصی طور امدادی ادارے امداد فراہم کرتے تھے۔اس کے علاوہ بھی امدادی تنظیمیں ان کی کفالت کرتی تھیں مگر فلسطینی اتھارٹی کےسیاسی فیصلوں کے نتیجے میں اب وہ بھی اس کفالت سے محروم ہوچکی ہے اور اس کا خاندان بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
خیال رہے کہ اسلامی تعاون تنظیم ’او آئی سی‘ نے غزہ کی پٹی میں اپنے تمام امدادی اداروں کے دفاتر بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ او آئی سی کی فلاحی تنظیموں کے دفاتر کی بندش کے نتیجے میں غزہ کے ہزاروں غریب خاندان براہ راست یا بالواسطہ طورپر متاثر ہوئے ہیں۔
مسلم امہ کہاں ہے؟
غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ امجد ربیع پانچ بچوں کے باپ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا مگر ذیابیطس کے نتیجے میں میرا کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ اب میرے بچے انتہائی غربت میں زندگی بسرکررہے ہیں۔
ربیع نے کہا کہ اس کے دو بچے روزہ رکھتے ہیں۔ جب وہ اپنے بچوں کی اچھی سحری اور افطاری کا انتظام نہیں کر پاتا تو اسے دلی دکھ ہوتا ہے۔ وہ غربت کے عالم میں اپنے بچوں کو روزہ رکھتے دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ یہ کیفیت صرف ماہ صیام کےدوران نہیں بلکہ پورے سال ایسی ہی کیفیت ہے۔بچے عیدوں پراپنی مرضی کے کپڑے جوتےاور دوسری چیزیں خرید کرنے سے قاصر ہیں۔
فلسطینی ماہر اقتصادیات ماہرالطباع کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں بے روزگاری کی شرح 41 فی صد سے تجاوز کرچکی ہے۔ مجموعی طور پر غزہ کی پٹی میں 2 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے 60 فی صد شہریوں کی آمدن اوسط شرح آمدن سے بھی کم ہے۔ غزہ کی پٹی میں غربت کی شرح 65 فی صد ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ غزہ کی پٹی میں غربت کے باوجود اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے اپنے اداروں کو بند کرنا مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔اگر او آئی سی بھی غزہ کی پٹی کے عوام کےساتھ انتقامی پالیسی پرعمل پیرا ہے تو مسلم امہ کہاں ہے؟
مشکل ترین رمضان
غزہ کی پٹی میں فلاحی اداروں کے درمیان رابطہ کار احمد الکرد نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ چالیس سال سے غزہ کی پٹی میں فلاحی کاموں میں سرگرم رہے ہیں مگر موجودہ رمضان میری زندگی کا انتہائی مشکل ترین رمضان ہے۔
اپنے ایک سابقہ انٹرویو میں احمد الکرد کا کہنا تھا کہ رواں سال امدادی آپریشن میں غیرمعمولی کمی آئی۔ اس سے قبل سالانہ 2 لاکھ خاندانوں کی ماہ صیام میں کفالت کی جاتی تھی مگر امدادی اداروں پر پابندیوں کے نتیجے میں رواں سال صرف ایک لاکھ خاندانوں کی کفالت کی جاسکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی کے عوام پر سب سے بڑی مشکل اسرائیل کی طرف سے مسلط گیارہ سال اقتصادی پابندیاں ہیں۔ اسرائیلی پابندیوں کے باعث غزہ میں آمدن کے تمام ذرائع محدود اور مسدود ہوچکے ہیں۔ ہرسال امدادی ادارے غزہ کی پٹی میں 50 ہزار اضافی خاندانوں کی کفالت کرتے تھے مگر اس سال ان کی تعداد میں 40 فی صد کمی کرنا پڑی ہے۔