قطری حکومت کے تعاون سے کچھ عرصہ قبل مکمل کیا جانے والا یہ اسپتال اپنی نوعیت کا علاقے کا منفرد شفا خانہ ہے جہاں امراض اطفال، امراض نسواں اور کئی خطرناک نوعیت کے جان لیوا امراض کا بھی شافی علاج کیا جاتا ہے۔
حمد اسپتال محصورین غزہ کے لیے کیوں کر ایک تحفے کی مانند ہے؟ اس کا جواب ایک سات سالہ بچے عبدالسلام عودہ کی ماں سے پوچھا جا سکتا ہے۔ ام عودہ کا کہنا ہےکہ اس نے غزہ کی پٹی میں جتنے بھی اسپتال تھے ان میں اپنےبچے کو مسلسل چھ سال تک علاج کرانے کی کوشش کی مگر اس کی بیماری کا علاج اگر ہوا تو صرف حمد اسپتال میں ہوا ہے۔
ام عودہ نے کہا کہ اس کے بچے کو ایک سال کی عمر میں ایک مورثوثی بیماری کا عارضہ لاحق ہوا جس کےبعد وہ مسلسل چھ سال تک اس اسپتالوں میں اٹھائے پھرتی رہی۔
ام عودہ کا کہنا تھا کہ اسے خدشہ تھا کہ اگر غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی بھی بدستور قائم رہی اور بیرون ملک بچے کو علاج کے لیے لے جانے کی اجازت نہ ملی تواس کا بیٹا لا علاج رہ جائے گا۔ جیسے جیسے وہ بڑتا ہوتا جائے گا اس کا علاج اور بھی پیچیدہ ہوتا جائے گا اور بیماری شدت اختیار کرتی جائے گی۔
تاہم حمد اسپتال نے اس کے بیٹے کی بیماری کے علاج کا خواب شرمندہ تعبیر کردیا۔ اسے بیرون ملک سفر کرنے اور ڈھیر سارے پیسے خرچ کرنے سے بھی بچالیا اور بیٹے ہی کو نہیں بلکہ پورے خاندان کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق الشیخ حمد بن خلیفہ اسپتال میں گونگے پن کے شکار بچوں کا بھی علاج کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں 22 قطری ڈاکٹروں اور فلسطینی معالجین نے گونگے بچوں مصنوعی آلات لگائے۔ اس کے علاوہ آلات سماعت سے محروم افراد بالخصوص بچوں کے لیے اسپتال کے نئے شعبے کا افتتاح غزہ میں قطری کمیٹی کے چیئرمیں اور فلسطین میں قطر کےسفیر محمد العمادی نے کیا۔ اب اس ڈیپارٹمنٹ میں روزانہ 150 بچوں کے علاج کی سہولت موجود ہے۔
مصنوعی اعضاء کی پیوندکاری
غزہ کی پٹی میں قطر کے تعاون سے قائم کردہ حمد میڈیکل کمپلیکس علاقے کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اسپتال میں جدید ترین طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ کئی اور خصوصیات بھی اسے دوسرے اسپتالوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اسپتال میں گونگے اور بہرے افراد کے علاج کے ساتھ ساتھ جسمانی اعضاء سے محروم افراد کو مصنوعی اعضا بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے غزہ کا یہ واحد اسپتال ہے جو مصنوعی اعضاء لگانے کی سہولت رکھتا ہے۔
خیال رہے کہ حمد بن خلیفہ اسپتال مجموعی طور پر 12 دونم رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کےعلاوہ اسپتال کے ساتھ ایک وسیع پارک بھی بنایا گیا ہے۔
چھ منزل اسپتال کی ایک منزل 2700 Â مربع فٹ ہے۔ اسپتال کو جدید ترین سہولیات سے آراستہ کرنے کے لیے غیرمعمولی اخراجات کیے گئے ہیں۔ صرف عمارت کی تیاری اور اس میں ضروری لوازمات کے لیے 16 ملین امریکی ڈالر اب تک صرف کیے جا چکے ہیں۔
غزہ کے 35 سالہ محمد یاسین کا کہنا ہے کہ اس جیسے زخمیوں اور اعضاء سے محروم افراد کی خوش قسمتی ہے کہ غزہ کی پٹی میں ایک ایسا جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال موجود ہے جو اعضاء سے محروم افراد کو مصنوعی اعضا لگانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
غزہ جنگ میں ایک ٹانگ سے معذور ہونے والے یاسین نے کہا کہ مجھ جیسے دیگر مریضوں کے پاس مصنوعی اعضا لگوانے کے لیے غزہ سے باہر جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ مگر قطر کی مہربانی سے غزہ کے ایسے سیکڑوں افراد کو مصنوعی اعضاء لگوانے کی سہولت میسر آ گئی ہے۔
عالمی معیار کی طبی سہولیات
اسپتال انتظامیہ سے بات کرنے پر پتا چلا کہ قطر کے تعاون سےقائم کردہ حمد اسپتال میں عالمی معیار کی جدید ترین سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ اسپتال میں خدمات انجام دینے والے طبی عملے کو نہایت احتیاط کے ساتھ چنا گیا ہے۔ اس اسپتال میں خدمات انجام دینے والے کئی ڈاکٹر دوسرے ملکوں میں بھی امراض کےعلاج کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے درجے کے اسٹاف کی بھی خصوصی تربیت کی گئی جس کے بعد انہیں اسپتال میں ملازمت فراہم کی گئی ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر اشرف القدرہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی میں قطر کی غیرمعمولی خدمات ہیں۔ حمد اسپتال محصورین غزہ کے لیے ایک گراں بہا تحفہ ہے جس میں ان بیماریوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے جن کا فلسطین میں علاج ممکن نہیں۔ اس اسپتال کےقیام کے بعد بالعموم پورے فلسطین بالخصوص غزہ کی پٹی کے عوام کو غیرمعمولی طبی سہولیات حاصل ہوئی ہیں۔
القدرہ کا کہنا تھا کہ قطر نے غزہ کی پٹی کے عوام پر مسلط ناکہ بندی کے اثرات کم کرنے، جنگ کے زخمیوں کے علاج اور دیگر بنیادی ضروریات کے لیے توقع سے بڑھ کر امداد فراہم کی ہے۔ اسپتال کےکئی شعبے ابھی زیرتکمیل ہیں۔ ان کی تکمیل کے بعد غزہ کے عوام کو بیرون ملک علاج کے لیے سفری صعوبتوں کی ضرورت کم ہی رہے گی۔
خیال رہے کہ سنہ 2012ء میں قطر کی حکومت نے غزہ کی پٹی میں تعمیر نو اور بحالی کے منصوبوں کے لیے 40 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم کی منظوری دی تھی۔