حماس کے سابق اسیر رہنما عبدالحکیم الحنینی نے ان خیالات کا اظہار ایک انٹرویو میں کیا۔ اسرائیل نے فلسطینی اسیران پر دباؤ ڈال کر جلد بازی میں اسیران کے تبادلے کے معاہدے کی ہرممکن کوششیں کی ہیں مگر اسرائیل کی اس طرح کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ فلسطینی اسیران نے دشمن کی طرف سے دباؤ کے تمام حربے ناکام ثابت کیے ہیں۔ اسرائیل اب ایک بار پھر وہی اسلوب اختیار کررہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسیران کے معاملے میں اسرائیل کی طاقت کے استعمال کی ہرپالیسی ناکام ٹھہرے گی۔ فلسطینی اسیران بار دگر دشمن کے دباؤ کا پوری قوت اور استقلال کے ساتھ مظاہرہ کریں گے۔ اسرائیل ان کے آہنی عزم کو شکست نہیں دے سکتا۔
ٹارگٹ کلنگ نے مزاحمت کی حدت میں اضافہ کیا
حماس رہنما نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسرائیل نے جب بھی فلسطینی مجاھدین اور رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کا راستہ اختیار کیا تو دشمن کو اس کے جواب میں فلسطینی تحریک مزاحمت میں شدت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب کی بار بھی اسرائیل نے القسام کمانڈر مازن فقہا کو اپنے ایجنٹوں کی مدد سے شہید کرایا ہے۔
دشمن نے مجاھدین کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اسرائیل کے خلاف لڑنے والے ہر فلسطینی کا انجام وہی ہوگا جو مازن فقہا کا ہوا ہے۔ مگر فلسطینی قوم نے اس کے جواب میں ثابت کیا ہے کہ اگر دشمن ایک مجاھد کو شہید کرتا ہے تو اس کے بدلے میں کئی اور اس کی جگہ لینے کو تیار ہوتے ہیں۔
الحینینی نے کہا کہ اسرائیل نے ماضی میں فلسطینی قوم کے ہیروز کو ٹارگٹ کلنگ کارروائیوں میں شہید کرکے اپنی منظم ریاستی دہشت گردی کا ثبوت دیا مگر فلسطینی قوم نے اس کے جواب میں بھرپور مزاحمت کے ساتھ جواب دیا۔ فلسطینیوں نے اپنے خون سے تحریک آزادی کو سینچا اور یہ پالیسی آزاد تک جاری رہے گی۔ دشمن کو ادراک ہونا چاہیے کہ فلسطین میں ایک مازن فقہا نہیں بلکہ ہزاروں موجود ہیں۔ فلسطین کا بچہ بچہ مازن فقہا ہے۔
عبدالحکیم الحنینی نے کہا کہ اسرائیل طاقت کے ذریعے فلسطینی تحریک مزاحمت کو کسی صورت میں نہیں دبا سکتا۔ فلسطین میں ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اسرائیل نے جب بھی کسی فلسطینی مجاھد یا رہنما کو شہید کیا ہے اس کے بعد فلسطینی تحریک مزاحمت کی حدت اور شدت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ ہر بار فلسطینیوں نے ماضی کی نسبت خود کو زیادہ منظم اور طاقت ور ثابت کیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں الحنینی نے کہا کہ کسی بھی تحریک انتفاضہ کی طرح اس وقت فلسطین میں جاری تحریک انتفاضہ بھی مدو جزر کا شکار رہے گی مگر مزاحمت اور انتفاضہ کی چنگاری کبھی بجھ نہیں سکتی۔ فلسطینی نوجوان نسل نے قابض دشمن کے خلاف مزاحمت کے تمام اسلوب اپنانے اور دشمن کو ہرمیدان میں شکست دینے کا عزم کررکھا ہے۔
غرب اردن میں القسام بریگیڈ کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے حماس کے سابق اسیر رہنما الحنینی نے فلسطینی نوجوانوں کے نام اپنے پیغام میں کہا وہ اللہ کی برکت اور اس کی رحمت سے آزادی کی جدو جہد جاری رکھیں۔ ہماری جدو جہد اس وقت تک جاری رہنی ہے جب ارض فلسطین پر دشمن قابض ہے۔ مایوس نہ ہوں۔ جو کچھ اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں وہ ہرقوم کو دیکھنا پڑتا ہے۔ قوم میں خائن اور بددیانت بھی ہوتے ہیں مگر ہمیشہ کامیابی ان کی ہوتی ہے کو آزادی کے لیے قربانیاں دیتے ہوئے دشمن کو ملک سے نکال باہر کرتےہیں۔
اسلامک بلاک کی کامیابی ایک اشارہ
حماس رہنما ڈاکٹر عبدالحکیم الحنینی نے کہا کہ غرب اردن میں جامعہ النجاح میں کئی سال کے وقفے کے بعد حماس کے حمایت یافتہ طلباء گروپ ’اسلامک بلاک‘ نے انتخابات میں حصہ لیا اور دوسری بڑی اکثریت بن کر یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطینی قوم کا نوجوان اب بھی حماس کی فکر کا حامی ہے۔ اگر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ریاستی مشینری کا استعمال نہ کیا جاتا۔ اسلامک بلاک پر پابندیاں عاید نہ ہوتیں اور اس کے کارکنوں اور رہنماؤں کو آزادی سے کام کرنے دیا جاتا تو آج نتائج اس سے مختلف ہوتے۔ مگر اس کے باوجود اسلامک بلاک نے نتائج تسلیم کرتے ہوئے جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا قوی ثبوت ہے کہ فلسطینی قوم جہاں بھی ہے وہ حماس کی فکر کو اپنائے ہوئے ہے۔ حماس کی جڑیں عوام میں گہری ہیں۔
طلباء کے لیے وصیت میں انہوں نے کہا کہ آپ قوم کے مخلص نوجوان ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کی آرام و راحت کس میں ہے۔ جو بھی آپ کی اخلاص کے ساتھ خدمت کرے، اس کا ساتھ دیں، آپ کو حصول علم کی طرف راغب کرے اور آپ کو کامیابی راہ دکھائے وہ آپ کا خیر خواہ ہے۔
انہوں طلباء پرزور دیا کہ وہ غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کی صہیونی فوج کے ساتھ جاری سیکیورٹی تعاون کی پالیسی کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہیں۔ اگرچہ انہوں نے اس سے قبل بھی اس باب میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ فلسطینی اتھارٹی نے انتقامی پالیسی کے تحت سیاسی بنیادوں پر طلباء کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ انہیں گرفتار کرکئے جیلوں میں ڈالا اور ان کے حصول علم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔
جیل ایک درسگاہ
چونکہ عبدالحکیم الحنینی کو سنہ 2011ء کے دوران ’معاہدہ احرار‘ کے دوران رہا کیا گیا تھا مگر اسرائیل نے ان کی رہائی کی فلسطین سے بے دخلی کی شرط پر قبول کی تھی۔ اس لیے وہ رہا ہونے کے بعد قطر چلے گئے تھے۔
الحنینی نے کہا اسرائیلی جیل ان کے لیے بمنزلہ اسکول تھا۔ انہوں نے جیل سے بہت کچھ سیکھا۔
اسرائیلی جیل میں ایک قیدی کی حیثیت سے گریجوایشن کیا، اسیر رہنماؤں سے بہت کچھ سیکھا۔ رہائی کے بعد ملائیشیا سے تعلقات عامہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
جیل کے دور کی یادیں دہراتے ہوئے الحنینی نے کہا کہ دوران اسیری میں نے اپنے اسیر بھائیوں سے بہت کچھ سیکھا۔ ثقافت ، تعلیم وتربیت، مزاحمتی تنظیمیوں کے بارے میں لٹریچر کا مطالعہ، تحریکوں کے بنیادی اصول یہ سب کچھ جیل میں سیکھنے کا موقع ملا۔ میں چوکہ حماس کا رکن تھا اس لیے میری دلچسپی کی کتب اور لٹریچر کم ہی دستیاب ہوتا مگر جتنا کچھ جیل سے سیکھا وہ اب قیمتی سرمایہ سے کم نہیں۔ جیل سے رہائی کے بعد میں نے بین الاقوامی تعلقات کے موضوع کو اس لیے منتخب کیا کیونکہ میں جیلوں میں اس بارے میں کافی مطالعہ کرچکا تھا۔
جیلوں میں حصول تعلیم میں مشکلات اور ان کا حل
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے جیل میں کن حالات میں گریجوایشن اور اس کے بعد ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے الحنینی نے کہا کہ صہیونی جیلر دیگر اسیران کی طرح مجھے بھی کتابوں تک رسائی سے محروم رکھنے کی پوری کوشش کرتے۔ مگر جب یہ اسلوب تمام اسیران کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے توہم اجتماعی بھوک ہڑتالیں شروع کردیتے۔
بھوک ہڑتالوں اور اس طرح کے دیگر طریقے اختیار کرکے ہم اپنا تدریسی اور تعلیمی عمل جاری رکھتے۔ اس میں کئی بار رکاوٹیں ڈالی جاتیں مگر ہم ہررکاوٹ کا کوئی نا کوئی متبادل حل نکال لیتے تھے۔ اسیران گویا اپنا تعلیمی حق دشمن سے چھین کر لیتے تھے۔
انہوں نے کہا میں صرف میں تنہا ایک طالب نہیں تھا بلکہ میرے ساتھ کئی دوسرے اسیر بھی اپنا تعلیمی عمل جیل ہی میں جاری رکھے ہوئے تھے۔ میں نے سنہ 1996ء میں جیل ہی میں ایک قیدی کے طور پرگریجوایشن کی۔ یونیورسٹیوں کی طرف سے اسیران کو ڈاک کے ذریعے تعلیمی مواد فراہم کرنے کی اجازت تھی۔ ہم نے بھی اس اجازت کا بھرپور استعمال کیا۔
یونیورسٹی کے کسی بھی قائم کردہ امتحانی مرکز میں ہمیں سال میں دو یا تین بار لے جایا جاتا اور بعض اوقات جیل ہی کے کسی مقام کو امتحانی مرکز کا درجہ دے کر طلباء سے امتحانات لے لیے جاتے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں الحنینی نے کہا کہ میں نے جب اسرائیلی جیل میں بہترین پوزیشن کے ساتھ تعلقات عامہ میں ’ایم اے‘ کیا تو میں اس پر بہت خوش تھا مگر ہمیں اس وقت اور زیادہ خوشی ہوئی جب ہم نے سنا کہ فلسطینی مجاھدین نے اسرائیل کے ایک فوجی گیلاد شالیت کو جنگی قیدی بنا لیا ہے۔
حصول علم کا سفر جاری
عبدالحکیم الحنینی نے کہا کہ فلسطینی قوم ہیروز کی قوم ہے۔ اس کا اندازہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی اسیران کے معمولات سے ہوتا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی جیلر،تفتیش کار، قیدیوں پر تشدد اور طرح طرح کی پابندیاں اور دوسری جانب فلسطینی اسیران ہرظلم کو نہ صرف خندہ پیشانی سے برداشت کرتے بلکہ وہ تمام تر مصائب کے باوجود جیلوں میں رہتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی منزلیں بھی طے کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں الحنینی نے کہا کہ رہائی کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں ایک سے زائد ملکوں سے تعلیم حاصل کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے آسانی پیدا کی اور مجھے پی ایچ ڈی کے لیے ملائیشیا کی نیشنل یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ میں نے ملائیشیا کے ایک ممتاز ماہر تعلیم اور دانشور ڈاکٹر عبدالرحیم بن احمد کی زیرنگرانی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ میں ڈاکٹر بن احمد کی خدمات اور شفقت کوکبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
بیرون ملک فلسطین وطن کے سفیر
بیرون ملک مقیم فلسطینیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے حماس رہنما نے کہا کہ مغربی ملکوں سمیت دنیا کے Â کئی ممالک میں فلسطینی مقیم ہیں۔ میرا ان کے لیے پیغام یہ ہےکہ وہ جہاں بھی ہیں فلسطین کے سفیر ہیں۔ انہیں دوسرے ملکوں میں ہرتے ہوئے فلسطینی قوم اور مسئلہ فلسطین کی ہرممکن خدمت کرنا ہے۔
انہوں نے فلسطینی نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی زندگی میں جدت لائیں۔ زیادہ سے زیادہ تعلیم کے حصول پرتوجہ دیں اور اگر وہ بیرون ملک مقیم ہیں تو وہ وہاں پر فلسطین کا نام روشن کریں کیونکہ ان کی حیثیت عام شہری کی نہیں بلکہ دوسرے ملک میں مقیم ہر فلسطینی اپنے وطن کا سفیر ہے۔
فرقہ واریت نے امت تباہ کردی
عرب خطے میں جاری فسادات اور بدامنی کی تحریکوں پر بات کرتے ہوئے حماس رہنما ڈاکٹر عبدالحکیم الحنینی نے کہا کہ پوری مسلم امہ اس وقت فرقہ واریت کی لعنت کا شکار ہوچکی ہے۔ ہرایک دوسرے کا گلا کاٹ رہا ہے۔ ہرایک اپنا پرچم اونچا کرنے کے لیے دوسرے کو زیر کرنے کے لیے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرتا ہے۔ فلسطینی قوم میں بھی فرقہ واریت کے بیج بونے کی مذموم سازشیں کی جا رہی ہیں مگر اب تک فلسطینیوں میں فرقہ واریت کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ حماس پوری امت کی وحدت کی پرچارک ہے اور ہمارا مشترکہ دشمن صرف قابض اسرائیل ہے جس نے ہمارے وطن پر ناجائز تسلط جما رکھا ہے۔ ہماری لڑائی کسی اپنے گروہ کےساتھ نہیں بلکہ اس مشترکہ دشمن کے ساتھ ہے جس کے ظلم کا ہم سب بلا تفریق شکار ہیں۔