غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کی سرکردہ حکومتی شخصیات اور اقتصادی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر رام اللہ اتھارٹی کی طرف سے غزہ پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں تو ان کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق غزہ کی پٹی میں ’فلسطینی اتھارٹی کی غزہ بارے پالیسی‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین اقتصادیات نے کہا کہ غزہ کے سرکاری ملامین کی تنخواہوں میں 30 سے 50 فی صد کمی کے بعد اگر مزید پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تو اسے فلسطینی اتھارٹی کا اہالیان غزہ کے ساتھ کھلم کھلا انتقام تصور کیا جائے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے نمایاں خوف فلسطینی اتھارٹی کے ان اعلانات کا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ رام اللہ انتظامیہ جلد ہی غزہ کی پٹی پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرے گی، تعلیم، صحت اور بلدیاتی اداروں کے بجٹ محدود کرے گی، نیز غزہ کی پٹی میں جاری ترقیاتی اور امدادی منصوبوں کی معاونت کرنے والے علاقائی اور عالمی اداروں کو سختی سے روکے گی۔
اس موقع پرخطاب کرتے ہوئے سیکرٹری خزانہ عونی الباشا نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کی پٹی سے ماہانہ ٹیکسوں کی مد میں 100 ملین ڈالر کی رقم وصول کرتی ہے جب کہ مقامی انتظامیہ کو ماہانہ صرف 16 ملین ڈالر کی رقم مل پاتی ہے۔
اسی طرح فلسطینی اتھارٹی ماہانہ غزہ کے ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں 50 ملین ڈالر کی رقم ادا کرتی ہے۔ گویا فلسطینی اتھارٹی اپنی طرف سے غزہ کے ملازمین کو کچھ نہیں دے رہی بلکہ غزہ ہی کے محصولات کو واپس اہالیان غزہ پر صرف کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فی صد کٹوتی کے بعد ملازمین کا ماہانہ بجٹ 40 ملین ڈالر تک آجائے گا۔
اسی طرح غزہ کی مقامی حکومت کو حاصل ہونے والے 16 ملین ڈالر کے محصولات میں سے تین ملین ڈالر کی رقم مقامی آپریشنل اخراجات پر صرف ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کو فراہم کردہ ایندھن اور بجلی کے بلات کی مد میں 3.5 شیکل فی لیٹر زیادہ وصول کئے جاتے ہیں۔ یوں ایک ملین لیٹر کے بدلے میں فلسطینی اتھارٹی روزانہ ایک ملین ڈالر کی رقوم اہالیان غزہ سے وصول کر رہی ہے۔
اسی طرح فلسطینی اتھارٹی غزہ میں گھریلو استعمال کے 12 کلو گرام کے گیس سیلنڈر پر 7 شیکل اضافی ٹٰیکس وصول کرتی ہے۔ گاڑیوں پر کسٹم ٹیکس 50 فی صد ہے۔ غزہ کی کمپنیوں اور دیگر مصنوعات پر ٹیکس اس کے علاوہ ہیں۔ سیمنٹ پر فی ٹن 160 شیکل اضافی ٹیکس بھی فلسطینی اتھارٹی وصول کرتی ہے۔ یہ تمام رقوم فلسطینی اتھارٹی کے بنکوں میں جاتی ہیں۔
تنخواہوں میں کٹوتی
غزہ وزارت اقتصادیات کی پلاننگ کمیٹی کے ڈائریکٹر اسامہ نوفل نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ سرکاری ملازمین تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہیں اس لیے غزہ کی پٹی کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کے تمام شعبہ ہائے زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 50 فی صد کمی ملازمین اور ان کے بچوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے اس اقدام سے ملازمین اور ان کے خاندان کے افراد خط غربت سے نیچے جاسکتے ہیں۔
فلسطینی عہدیدار کا کہنا تھا کہ رام اللہ اتھارٹی ایک سوچے سمجھے انتقامی منصوبے کے تحت غزہ کے ملازمین کی تںخواہوں میں کمی کے بعد بجلی، صحت، تعلیم اور بلدیات کے بجٹ روکنا چاہتی ہے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں بدترین معاشی المیہ رونما ہوسکتا ہے۔ جس کی تمام ترذمہ داری فلسطینی اتھارٹی پرعائد ہوگی۔
اسامہ نوفل کا کہنا تھا کہ گذشتہ تین سال کے دوران فلسطینی اتھارٹی کے ریونیو میں 66 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ گویا اتھارٹی کے ریوینیو میں سالانہ 17 فی صد اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں سال میں صرف غزہ کی پٹی سے فلسطینی اتھارٹی نے 330 ملین ڈالر کا ریوینیو اکٹھا کیا ہے۔
اس کے علاوہ حالیہ عرصے کے دوران فلسطینی اتھارٹی کو 29 ملین ڈالر کی رقم الجزائر، 30 ملین ڈالر سعودی عرب کی طرف سے ادا کی گئی۔ سعودی عرب کی طرف سے سے کل 150 ملین ڈالر کی مجموعی رقم کی یہ پہلی قسط ہے جبکہ 120 ملین ڈالر کی رقم اسرائیل کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکسوں کی مد میں ادا کی گئی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے سالانہ آپریشنل اخراجات 560 ملین ڈالر ہیں جن میں 170 ملین ڈالر امن وامان پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ بیرون ملک اخراجات270 ملین ڈالر، صدر کے اخراجات 139 ملین ڈالر، غزہ کو طبی شعبے میں کل فلسطینی ریوینیو کا 30 فی صد ادا کیا جاتا ہے۔