غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی اسیران میڈیا سینٹر کے چیئرمین اور سابق اسیرعبدالرحمان شدید نے کہا ہے کہ 17 اپریل کو ’یوم اسیران‘ کے موقع پر اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل تمام جماعتوں کے اسیر کارکنان اجتماعی بھوک ہڑتال میں حصہ لیں۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق عبدالرحمان شدید نے کہا کہ 8 اگست 2016ء سے تمام اسیران قائدین نے متفقہ طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ ہرسال ’یوم اسیران‘ کے موقع پر اجتماعی طور پربھوک ہڑتال کریں گے۔ بھوک ہڑتال میں تمام فلسطینی جاعتوں کے اسیر ارکان بھرپور طریقے سے حصہ لیں گے۔عبدالرحمان شدید نے کہا کہ اجتماعی بھوک ہڑتال کی تجویز ’ھداریم‘ نامی اسرائیلی جیل میں قید تحریک فتح کے رہ نماء مروان البرغوثی نے پیش کی ہے۔ اس تجویز کے بعد اسرائیلی زندانوں میں قید تمام فلسطینی اسیران اجتماعی بھوک ہڑتال کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی زندانوں میں قید اسیران قائدین نے متفقہ طور پر 17 اپریل سے اجتماعی بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا قومی سطح پر تمام فلسطینی دھڑوں کی طرف سے پسند کیا گیا اور اس کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔
قبل ازیں اسرائیلی جیل میں قید تحریک فتح کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ مروان البرغوثی کی طرف سےجاری کردہ ایک بیان Â سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے تمام اسیر کارکنان اور رہنماؤں پر سترہ اپریل سے اجتماعی بھوک ہڑتال کی اپیل کی تھی۔
البرغوثی کا کہنا ہے کہ Â ہم بھوک ہڑتال سے قبل اسرائیلی انتظامیہ کے سامنے اپنے مطالبات کی فہرست پیش کریں گے۔ اگر ہمارے تمام مطالبات تسلیم کئے گئے تو بھوک ہڑتال کا اعلان واپس لیا جاسکتا ہے ورنہ اپنے مطالبات پورے ہونے تک بھوک ہڑتال جاری رکھی جائے گی۔
فلسطین میں اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کلب برائے اسیران کے چیئرمین قدورہ فارس کا کہنا ہے کہ اجتماعی بھوک ہڑتال اسیران کےعزم کا امتحان ہے۔ اتنی بڑی بھوک ہڑتال آج تک نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل تمام اسیران سے مطالبہ کیا کہ وہ صہیونی انتظامیہ کے مظالم کے جواب میں ذمہ داری اور بیداری کا مظاہرہ کریں۔ انتظامی حراست کے خلاف Â بہ طور احتجاج بھوک ہڑتال کرنے والے اسیران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔
خیال رہے کہ اسرائیل کے 22 عقوبت خانوں میں 6500 فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔ ان میں 29 فلسطینی اوسلو معاہدے سے بھی پہلے کےقید ہیں، 14 لڑکیوں سمیت 62 خواتین ،300 بچے اور Â 500 انتظامی حراست کے تحت قید فلسطینی بھی شامل ہیں۔