کوئی دن نہیں جاتا کہ صہیونی دشمن فورسز فلسطینیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران انہیں گرفتار نہ کرتی ہو۔ حال ہی میں شمال فلسطین کے ام الفحم شہر سے اسلامی تحریک کے مرکزی رہنما سلیان اغباریہ کو حراست میں لے Â کر جیل میں ڈال دیا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ اسلامی تحریک کے کسی رہنما کو اس بے رحمی کے ساتھ حراست میں لیا گیا۔ ایسا ہر روز ہر شہر اور فلسطینی قصبے اور گاؤں میں ہوتا ہے۔ بہت کم جماعتیں ایسی ہیں جو صہیونی دشمن کی انتقامی سیاست سے محفوظ رہتی ہوں۔
گرفتاریوں کے درپردہ مذموم عزائم
مقامی فلسطینی تجزیہ نگار اور ام الفحم کے رہائشی صالح لطفی کا کہنا ہے کہ اسلامی تحریک کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کے تین اہم مذموم مقاصد ہوسکتے ہیں۔ پہلا مذموم مقصد اسلامی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرنا ہے۔ اس مذموم مقصد کے لیے اندرون فلسطین میں اسلامی تحریک کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
صالح لطفی نے کہا کہ صہیونی انتظامیہ نے16 نومبر 2015ء کو باضابطہ طورپر اسلامی تحریک کے شمالی بازو کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسے خلاف قانون تنظیم قرار دیا۔ نہ صرف اسلامی تحریک پر پابندی عائد کی گئی بلکہ جماعت سے وابستگی کی پاداش میں ہر رہنما اور کارکن کو جیل میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ اسلامی تحریک سے وابستہ 20 ذیلی اداروں کو بھی خلاف قانون قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی گئی۔ Â ستم کا علم یہ ہے کہ حراست میں لیے گئے کسی کارکن یا رہنما کے خلاف عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا گیا بلکہ برطانوی استبداد کے دوران سے چلے آرہے انتظامی حراست کے ظالمانہ قانون کے تحت انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
لطفی نے کہا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے اسلامی تحریک پر پابندی کا دوسرا پہلواندرون ملک فلسطینیوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ اسلامی تحریک کے ساتھ وابستگی انہیں بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ شہری آزادیوں پر قدغنوں سے قطع نظر صہیونی ریاست یہ بتاناچاہتی ہے کہ اسلامی تحریک سے ہمدردی رکھنے والا ہر فلسطینی صہیونی فوج کے نشانے پر ہے۔ کسی بھی فلسطینی کو اسلامی تحریک کی سرگرمیوں کو بحال یا فعال Â کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی جسارت کرے گا تو اس کی سزا قاتلانہ حملے میں شہادت یا گرفتاری اور جیل ہوسکتی ہے۔
اس اقدام کا تیسرا پہلو صہیونیوں کو اسرائیلی حکومت کی طرف سے اطمینان دلانا ہے۔ تشویش کا شکار صہیونی آباد کاروں کو یہ یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ صہیونی ریاست ان کے تحفظ کے لیے ہرممکن اقدامات کررہی ہے۔ اس کا اظہار اسلامی تحریک جیسی تنظیموں پر پابندیوں کے نفاذ سے کیا جاسکتا ہے۔
فوج گردی اور بے دخلی
سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بسنے والے فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کی جارحیت میں اضافہ نیا نہیں مگر سنہ 2008ء میں جب سے اسرائیل میں دائیں بازو کے انتہا پسند سیاسی گروپ برسراقتدار آئے ہیں شمالی فلسطین کے اندر رہنے والے عرب فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔
صالح لطفی کا کہنا ہے کہ صہیونی حکام Â ام الفحم اور دوسرے شہروں میں دو ذرائع سے اپنے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ اول یہ کہ اندرون فلسطین شہریوں کو دباؤ میں رکھنا، فوج گردی کی پالیسی اختیار کرنا ہے۔ یہ پالیسی بھی پہلی بار اختیار نہیں کی گئی۔ سنہ 1970ء کےعشرے میں بھی اندرون فلسطین کے شہری صہیونی دشمن کی فوج گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی اس وقت تمام تر توجہ اندرون فلسطین اور غرب اردن کے علاقوں سے فلسطینی آبادی کو بے دخل کرنا ہے۔ چنانچہ گرفتاریوں سمیت جتنے بھی طاقت کے مکروہ ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں ان کا اصل مقصد یہی ہے کہ فلسطینیوں پر عرصہ حیات اتنا تنگ کیا جائے کہ وہ خود ہی فلسطین چھوڑ دیں۔
اسلامی تحریک پر پابندیوں کے بعد
قومی جمہوری سماج پارٹی کے سیکرٹری جنرل امطانس شحادہ نے کہا سلیمان اغباریہ کی گرفتاری کا مقصد فلسطینی آبادی کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال میں اضافہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے طاقت کے استعمال کے کئی طریقے ہیں۔ Â صہیونی فوج اب جدید ترین طریقے اور حربے استعمال کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست نے ایک بار پھر اسلامی تحریک اور اس کے وابستگان کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا ہے۔ صہیونی ریاست کی طرف سے نہ صرف اسلامی تحریک کی فلاحی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں بلکہ اسلامی تحریک کو سیاسی میدان سے بھی آؤٹ رکھنے کی سازشیں جاری ہیں۔
اندرون فلسطین میں مقابی عرب آبادی کی نمائندہ سپریم فالو اپ کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سلیمان اغباریہ کی گرفتاری دراصل فلسطینی شہریوں کو سیاسی گرمیوں کی پاداش میں خوف زدہ کرنے کی مذموم کوشش Â ہے۔ صہیونی حکومت اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے عرب شہریوں کی زبان بند کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو جس منظم نسل پرستی کا سامنا ہے اس کا مقصد بھی فلسطینی عوام کو دباؤ میں رکھنا اور اپنے تابع رکھنے کی کوشش ہے۔