ڈاکٹر بردویل نے ان خیالات کا اظہار ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حماس نے قومی حکومت کے متوازی حکومت قائم نہیں کی تاہم حماس فلسطینی مجلس قانون ساز کو ملک کا سب سے بڑا اور ذمہ دار قانون ساز ادارہ قرار دیتے ہوئے آئین سازی کا فورم اسی کو تسلیم کرتی ہے۔ حکومت کی طرف سے غزہ کی پٹی کے عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اگر حکومت اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کوتاہی کا مظاہرہ کرتی ہے کہ حماس اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں سستی نہیں کرے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بردویل نے کہا کہ حماس اور تحریک فتح کے درمیان قومی مفاہمت کے حوالے سے کئی اہم نکات پر اتفاق رائے طے پا گیا تھا مگر صدر محمود عباس کی ڈکٹیٹرشپ نے اس میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
غزہ میں ساحلی کیمپ معاہدہ قومی اتفاق رائے کی بہترین مثال تھی۔ اسی اتفاق سے فلسطین میں قومی اتفاق رائے سے حکومت تشکیل دی گئی مگر تنظیم آزادی فلسطین کی تشکیل نو کے لیے حکومت کا اجلاس نہیں ہونے دیا گیا۔ غزہ کی پٹی کے سرکاری ملازمین کو تسلیم کیا گیا اور نہ ہی غزہ میں بجلی کے بحران کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔
ڈاکٹر بردویل نے اپنے انٹرویو میں فلسطین کی موجودہ صورت حال، مصر کے ساتھ تعلقات، تحریک انتفاضہ القدس اور دیگر اہم قومی اور علاقائی امور پرسیر حاصل گفتگو کی۔ ان کا تفصیلی انٹرویو اردو قارئین کی خدمت میں جلد پیش کیا جائے گا۔
 ***  ان دنوں یہ خبریں آئی تھیں کہ حماس غزہ کی پٹی کے لیے ایک نئی انتظامی باڈی کی تشکیل کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس انتظامی باڈی کی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا موجودہ حالات اس کے لیے  موزوں ہیں؟ مجوزہ انتظامی باڈی کی اہم ذمہ داریاں کیا ہوں گی؟
البردویل:۔ سبھی کو علم ہے کہ جون 2014ء میں غزہ کے ساحلی کیمپ میں فلسطینی سیاسی دھڑوں میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت فلسطین میں قومی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا گیا۔ حسب توقع معاہدے کے تحت اس حکومت کو اپنی ذمہ داریاں سنھبالنا، غزہ کی ناکہ بندی، غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، بجلی کے بحران کے حل کے ساتھ ساتھ انتخابات کے لیے جامع پلان ترتیب دینا تھا۔
یہ معاہدہ ایک پیکج کی شکل میں تھا۔ قومی حکومت کی تشکیل کے لیے صدر محمود عباس کی طرف سے صدارتی فرمان جاری کرنے کی ضرورت تھی۔ صدر محمود عباس نے قومی حکومت کی تشکیل کے لیے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا فرمان جاری نہیں کیا جس کے نتیجے میں قومی حکومت کو پارلیمنٹ سے اعتماد حاصل ہونے کا معاملہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ اس طرح پارلیمنٹ کو بھی عضو معطل کردیا گیا۔ صدر محمود عباس نے تنظیم آزادی فلسطین کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھی کوئی جامع قدم نہیں اٹھایا۔ قومی مفاہمت کی کوششوں کو بھی سبوتاژ کیا گیا بلکہ غرب اردن میں سیاسی کارکنوں پر عرصہ حیات مزید تنگ کردیا گیا۔
یوں غزہ کو بے انتظام علاقہ کے طور پرچھوڑ دیا گیا۔ غزہ کے عوام کے مسائل کے حل کے بجائے مکمل طورپر لاپرواہی برتی جانے لگی۔ غزہ میں حماس کے نامزد رابطہ کاروں نے مسائل کے حل کے لیے حکومتی وزراء سے رابطے کیے مگر کوئی وزیر تک غزہ کے دورے پر نہیں آیا۔
فلسطینی حکومت کے اس طرز عمل سے سخت مایوسی پھیلی اور قومی سماجی دھارے کو منظم کرنے کی تمام کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکیں۔ غزہ کے عوام کو فلسطینی حکومت کی طرف سے الٹا بلیک میل کیا جانے لگا۔ نئی اور بے معنی شرایط عاید کرکے غزہ کو بجلی کے بحران سے دوچار کردیا گیا۔ بجلی کے بھاری بلات کا بوجھ بحران کو مزید سخت کرنے کا موجب بنا۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ تمام اچھائیاں رام اللہ میں ہیں اور تمام برائیاں غزہ کی پٹی اور حماس کی طرف سے ہیں۔ فلسطینی حکومت کے بجائے فلسطینی اتھارٹی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ قومی حکومت کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ حکومت کا سربراہ وزیراعظم نہیں بلکہ صدر ہیں۔ برائے نام قومی حکومت کے باوجود غزہ کی پٹی کےسرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا معاملہ حل نہیں کیا گیا۔
ان تمام مشکل حالات کے پیش نظرحماس نے غزہ کی پٹی کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت پرزور دیا ہے۔ غزہ میں قائم انتظامی کمیٹی کو مکمل طور پر با اختیار ہونا چاہیے۔ یہ کمیٹی سابقہ کابینہ میں معمولی ردو بدل بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کمیٹی اور فلسطینی قومی حکومت کے درمیان ہم آہنگی کا Â ہونا بھی ضروری ہے۔
غزہ کے لیے انتظامی کمیٹی کی تشکیل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم فلسطینی حکومت کے کردار کی نفی کررہے ہیں۔ اگر فلسطینی حکومت کا کوئی وزیر غزہ کا دورہ کرے تو یہ کمیٹی اس کی خدمت پر مامور ہوگی۔ مگر کسی بھی فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار کی آمد کا مقصد غزہ کے عوام کے مسائل حل کرنا ہونا چاہیے نا کہ مسائل کو مزید الجھانا۔
*** کیا انتظامی کمیٹی قومی حکومت کا متبادل ہوگی؟
البردویل:۔ Â غزہ کے لیے انتظامی باڈی محض کوئی کمیٹی نہیں ہوگی بلکہ یہ حکومت ہی کی انتظامی کمیٹی ہوگی۔ یہ کمیٹی اپنے طور پرنہیں بلکہ وزارتوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرے گی۔
ہم سب کو اطمینان دلاتے ہیں کہ غزہ کے لیے مجوزہ انتظامی کمیٹی کا اصل کردار عوامی اداروں اور حکومت کے درمیان رابطوں کا فروغ، وقت اور مال کی حفاظت ہوگا۔ اس کمیٹی کو حکومت نہیں کہا جاسکتا۔
جہاں تک حماس کی طرف سے پیش کی گئی انتظامی کمیٹی کی تجویز پر صدر عباس اور تحریک فتح کی طرف سے عدم تعاون کی پالیسی ہے تو یہ دراصل غرب اردن میں اپنی ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہے۔ ذرائع ابلاغ میں اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی گذشتہ ہفتے ایک فلسطینی بلاگر باسل الاعرج کی شہادت کے بعد نکالی جانے والی ریلیوں پر طاقت کے استعمال پرسخت عوامی دباؤ میں ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ انتظامی کمیٹی دو سال سے قائم ہے مگر غیر فعال ہے۔ نئی انتظامی کمیٹی کی تشکیل فلسطینی اتھارٹی سے انحراف کے مترادف ہوگی۔
یہ لوگ (فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار) امریکا اور اسرائیل کو ایک نیا تحفہ دینا اور غزہ کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے طرز عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود کو غزہ سے لا تعلق ثابت کررہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال صدر محمود عباس کی جانب سے غزہ کو بلدیاتی انتخابات میں نظر انداز کرنے سے لی جاسکتی ہے۔
***کیا آپ نے مجوزہ انتظامی کمیٹی کی بابت دیگر فلسطینی جماعتوں کو مطلع کیا؟
البردویل:۔۔ بلا شبہ ایسا کوئی بھی قومی نوعیت کا کام باہمی مشاورت کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم نے دوسری فلسطینی تنظیموں کے ساتھ مکمل مشاورت کی اور انہیں کہا کہ وہ اپنی اپنی قومی ذمہ داریوں کا Â احساس کریں اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کو محمود عباس جیسے شخص پر نہ چھوڑیں۔ محمود عباس کو غزہ سے کوئی چاہت نہیں اور نہ ہی وہ اس علاقے کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ تمام فلسطینی تنظیموں کو بھی اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے۔
ہم نے تمام فلسطینی نمائندہ جماعتوں کہا کہ وہ غزہ کے عوام کے مسائل کے حل کے ذمہ دار بھی ہیں اور یہاں کے وسائل اور مسائل سب میں برابر حصہ دار ہیں۔ ہم سب کو مل کر غزہ کی پٹی کے عوام کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ کسی جماعت کی طرف سے اس معاملے میں غیر جانب دار رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
حماس کا نیا منشور
*** حماس کا نیا منشور کیا ہے؟ اس کا باضابطہ اعلان کب کیا جائے گا اور اس میں کیا نئی بات شامل ہے؟
البردویل:۔ Â حماس کی طرف سے کوئی پہلی بار منشور جاری نہیں کیا جا رہا ہے۔ حماس ایک زندہ اور ڈائنامک جماعت ہے۔ ہم اپنے قومی دیرینہ اصولوں پر تو کوئی سودے بازی نہیں کرسکتے۔ غاصب صہیونی دشمن کے ساتھ حماس اور پوری قوم کی کشمش دائمی ہے اور اس تک جاری رہے گی جب تک کہ فلسطینیوں کو ان کے تمام حقوق انصاف کے تقاضوں کے مطابق مل نہیں جاتے۔
حماس نے جس مجوزہ منشور کی بات کی ہے وہ جلد ہی قوم کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ کسی بھی شخص کو کسی تیسرے فریق کے اشارے پر حماس کے منشور کے بارے میں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
منشور کی تیاری کے بعد اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا جس کے بعد اسے پمفلٹ کی شکل میں لانے کے بعد جماعت کی مرکزی قیادت کی موجودگی میں ایک کانفرنس میں اس کا اعلان کیا جائے گا۔
اس وقت یہ منشور ترجمے کے مراحل میں ہے اور ہم انتہائی محتاط انداز میں اس کا ترجمہ کررہے ہیں۔ دوسری زبانوں میں منشور کی منتقلی ایک نازک اور حساس کام ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ ترجمے میں کہیں کوئی ایسی چوک نہ ہوجائے جس کے نتیجے میں اصل معانی کے بجائے کوئی دوسرا مفہوم اخذ کیا جاسکے۔
جہاں تک اس منشور کے متن اور اس کی جزئیات کی بات ہے تو اس پر کوئی بات رائے قبل از وقت ظاہر نہیں کی جاسکتی۔ چند ہفتوں اور دنوں کی بات ہے حماس کا نیا منشور سب کے سامنے ہوگا مگر میں یہ واضح کردوں کہ حماس قومی اصولوں، قومی اقدار، اخلاقی، فکری اور سماجی اقدار پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی۔
سیاسی صورت حال
*** موجودہ سیاسی صورت حال پر آپ کیا تبصرہ کریں گے؟ کیا حماس اور فتح کے درمیان عن قریب ملاقات کا کوئی امکان ہے؟
البردویل:۔۔ حماس تحریک فتح سے ہمیشہ رابطے میں رہتی ہے۔ اس ملک میں ایک ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ چائے ہم ایسا سمجھیں یا نا سمجھیں۔ حماس غرب اردن میں اور تحریک فتح غزہ میں موجود ہے، تاہم تحریک فتح اس وقت سیاسی آلودگی اک شکار ہے۔ غرب اردن میں حماس کے کارکنان پر عرصہ حیات تنگ کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ تحریک فتح کا ہے۔ غرب اردن میں حماس کے سیاسی کردار کو محدود کرنے اور حماس کو دیوار سے لگانے کے لیے جماعت کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ تحریک فتح اسرائیل اور امریکیوں کے ایجنڈے پرعمل پیرا ہے۔ دوسری جانب حماس اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک کام کرنے والی فلسطینی تنظیموں کو بھی آپس میں مربوط کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ہم قوم کے سماجی اور سیاسی دھارے پر قینچی نہیں چلانا چاہتے بلکہ سب کو ایک فورم پر متحدہ کرنا کی تگ و دو کررہے ہیں۔
تحریک فتح اس وقت قیادت کے بحران سے بھی دوچار ہے۔ اس کی موجودہ قیادت آمریت کی راہ پر چل رہی ہے۔ حماس یا کسی دوسری جماعت کو تسلیم کیا کرے گی تحریک فتح کی موجودہ قیادت جماعت کے اپنے ہی دھڑوں کو برداشت نہیں کررہی ہے۔
تحریک فتح کی موجودہ قیادت میں قوم کو متحدہ کرنے کی Â صلاحیت نہیں اور نہ ہی یہ جماعت قوم کو منظم کرنے کرسکتی ہے۔ موجودہ فتحاوی قیادت فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے آواز بلندکرنے کی جرات بھی نہیں کرپاتی۔ بیت المقدس کا تحفظ اور یہودی آباد کاری کی روک تھام بھی فتح کی موجودہ قیادت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
فتحاوی قیادت قوم کو متحد کرنے کے بجائے اسے مزید منتشر کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ ہم جب بھی قومی مفاہمت کے لیے کوئی قدم اٹھاتے ہیں صدر محمود عباس ہمیں پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ بیروت میں حماس اور فتح کی قیادت نے بات چیت کی، صدر عباس نے نظرانداز کردی۔ روس کی میزبانی میں حماس اور فتح میں مذاکرات ہوئے مگر مفاہمت کی بات آئی تو صدر عباس نے تمام کوششوں پر پانی پھیردیا۔
فلسطینی اتھارٹی کا یہ طرز عمل قوم کی خدمت نہیں بلہ قوم دشمنی کا مظہر ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ تحریک فتح کی قیادت ایسے بزدلوں کے ہاتھ میں ہے جو’نہیں‘ کہنے کی جرات بھی نہیں کرتے اور تحریک کے اندر سے کوئی جرات انکار کرتا ہے تو اسے جماعت سے نکال دیا جاتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی، انتظامیہ، عدلیہ اور ایوان صدر جب چاہتے ہیں کسی رہ نما کی کردار کشی شروع کردیتے ہیں۔ نا کسی رکن پارلیمنٹ کے پارلیمانی تحفظ کا خیال رہتا ہے اور نہ ہی اپنی قومی ذمہ داریوں کا کوئی پاس یا لحاظ کیا جاتا ہے۔
مصر کے ساتھ تعلقات
*** مصر کے ساتھ حماس کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ کیا دو طرفہ تعلقات میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟
البردویل:۔ سب جانتے ہیں کہ حماس کا مصر کے بارے میں موقف روز اول سے محبت اور احترام پر مبنی رہا ہے۔ حماس نے کبھی بھی مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ مصر کے بعض ذرائع ابلاغ نے فلسطینی اتھارٹی کے ایماء پر حماس کو بدنام کرنے اور جماعت کی قیادت کی کردار کشی کی مہم چلائی۔ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ حماس مصر کے ساتھ مذاکرات کے لیے کہیں اور کسی بھی وقت تیار ہے۔ ہم مصر کو پامال ہونے کی اجازت قطا نہیں دیں گے۔ مگر ہمیں افسوس ہے کہ ہماری تمام تر خیرسگالی اور امن کی خواہش کے باوجود غزہ کی پٹی کےعوام کا محاصرہ کم نہیں کیا گیا۔ غزہ کی واحد بین الاقوامی گذرگاہ بدستور بند ہے۔ ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ مصری قیادت غزہ کے ساتھ فری تجارت شروع کرنے، غزہ کو بجلی کے بحران کے حل میں مدد دینے اور غزہ کے شہریوں کی عالمی دنیا تک رسائی آسان بنانے کے لیے تیار ہے۔ مگر یہ سب خلائی اور ہوائی سطح پر ہے۔
چند ہفتے قبل حماس کی قیادت نے اپنے دورہ مصر کے دوران مصری قیادت سے تمام حل طلب امور پرکھل کر بات کی۔ ہمیں یقین بھی دلایا گیا کہ غزہ کے عوام کے مسائل کا دیر پا حل نکالا جائے گا۔
*** Â غزہ کی پٹی کی سرحد کھلنے پر فلسطینی اتھارٹی کو کسی قسم کے تحفظات ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں؟
البردویل:۔ غزہ کے حوالے سے فلسطینی اتھارٹی کا منفی کردار ہمارے سامنے ہے۔ کیونکہ فلسطینی اتھارٹی وہی کچھ کرتی ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔ غزہ میں استحکام اسرائیل کی خواہش نہیں اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی ایسا چاہتی ہے۔ اس لیے اگر غزہ کی پٹی کی بین الاقوامی سرحد کھلتی ہے تو فلسطینی اتھارٹی دلی طورپر اس پیش رفت کو قبول نہیں کرے گی۔
انتفاضہ القدس
*** فلسطین میں جاری تحریک انتفاضہ القدس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟َ
البردویل:۔ انتفاضہ القدس ایک عوامی اصطلاح ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم صہیونی دشمن کے ساتھ سیکیورٹی کوآرڈی نیشن کی مخالفت، صہیونی ریاست کے جرائم کے خلاف عوام کا صدائے احتجاج بلند کرنا، بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی پامالیوں کی روک تھام کے لیے تمام دستیاب وسائل سے مزاحمت کرنا۔
محمود عباس کو صہیونی وزراء اور اسرائیلی سیاست دانوں کے استقبال سے فرصت نہیں۔ وہ شہداء کے یتیم بچوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ تحریک انتفاضہ نے سب کو حیران وپریشان کردیا ہے۔ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ تحریک انتفاضہ ختم ہوگئی ہے۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک یک دم ایک شعہ بن کر بھڑک اٹھتی ہے۔