فلسطینی اتھارٹی ہر بہرصورت ان تمام شرائط پر سخت سے عمل کرنا ہوگا جو امریکی حکومت کی طرف سے پیش کی جا رہی ہیں۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق صدر عباس کے سامنے پیش کی گئی شرائط درج ذیل ہیں۔
*** فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات فوری طور پر بحال کرے۔
*** فلسطینی اتھارٹی صرف امریکیوں پر انحصار نہ کرے بلکہ مذاکراتی عمل میں اردن، مصر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو بھی شامل کرے۔
*** ماضی میں ہونے والے فلسطین، اسرائیل مذاکرات میں جاری کردہ فیصلوں پر فلسطینی انتظامیہ کسی قسم کا اعتراض نہ کرے۔ بالخصوص صہیونی آباد کاری کی مخالفت ترک کرے۔ اسرائیل پر مکمل طور پر صہیونی آباد کاری پر پابندی نہیں لگائی جائے گی تاہم اسرائیل نئی صہیونی بستیاں تعمیر کرنے سے گریز کرے۔
*** نئی امریکی انتظامیہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے محض بیان بازی کو قبول نہیں کرے گی بلکہ وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف عملی کارروائی کا انتظار کرے گی۔ امریکا فلسطینی اتھارٹی پر واضح کررہا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف سرگرم تمام فلسطینی گروپوں کے خلاف بلا امتیاز اور سخت ترین کارروائی کرے۔ جس طرح امریکی خواہش ہے فلسطینی تعلیمی نظام میں تبدیلیاں کی جائیں، فلسطینی شاہراؤں کے نام شہداء کے ناموں سے منسوب کرنے کے بجائے ان کے نام تبدیل کیے جائیں اور فلسطینی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل کے خلاف پروپیگنڈہ بند کیا جائے۔
*** Â فلسطینی سیکیورٹی فورسز مزاحمتی قوتوں کے خلاف اپنی پالیسی تبدیل کریں۔ امریکی انتظامیہ مشتبہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو صرف حراست میں نہ لے بلکہ فلسطینی اتھارٹی باقاعدہ طور پر ایک نئی پالیسی کے تحت ہر مزاحمت کرنے والے، اس کے سہولت کاروں، اسلحہ فراہم کرنے والوں اور مزاحمتی کارروائیوں میں کسی بھی قسم کی معاونت کرنے والوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں۔
*** فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے اہل خانہ اور شہداء کے لواحقیقن کو وظائف دینا بند کرے۔
*** فلسطینی اتھارٹی اپنے زیرانتظام سیکیورٹی اداروں میں جامع اصلاح کرے۔
*** غزہ کی پٹی کو مالی مراعات کی فراہمی روک دے کیونکہ غزہ کو ملنے والی امداد اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے ہاتھ لگ رہی ہے۔ اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ فلسطینی اتھارٹی اپنا 52 فی صد بجٹ غزہ پرخرچ کرے۔
*** اگر فلسطینی اتھارٹی مذکورہ شرائط پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد یقینی بناتی ہے تو امریکا اس کے بدلے میں رام اللہ اتھارٹی کے ساتھ تعاون اور دو Â تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کرے گا۔