فلسطین کے ان گنت مقدس مقامات میں خطہ ارضی میں حرمین شریفین کے بعد فلسطین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ و کعبہ موجود ہے۔ قبلہ اوّل کے خلاف سال ہا سال سے جاری یہودی و نصارایٰ کی سازشوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کے دوسرے مقدس ترین مقامات بھی خطرے میں ہیں۔ انہی میں دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں Â واقع تاریخی جامع مسجد ابراہیمی جسے ’حرم ابراہیمی‘ بھی کہا جاتا ہے فلسطین میں قبلہ اوّل کے بعد دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ فلسطین میں یہودی اور صہیونی سرطان کے سرائیت کرنے کے بعد فطری طور پر وہاں کے دوسرے مقدس مقامات کی طرح مسجد ابراہیمی بھی صہیونیوں کی مسلسل ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔
فلسطین میں سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب ۔ اسرائیل جنگ کے دوران صہیونی غاصب افواج نے غرب اردن کے شہرالخلیل پرغاصبانہ قبضہ کیا تو یہ مسجد بھی صہیونیوں کے نرغے میں آگئی تھی۔ اس کے بعد اس مسجد کو تقسیم یا مسلمانوں سے چھین لینے کے لیے خوفناک سازشیں جاری رہیں۔ یہاں تک کہ سنہ 1994ء کا وہ منحوس اور مکروہ وقت بھی آن پہنچا جب ایک انتہا پسند یہودی دہشت گرد گولڈ چائن نے مسجد میں گھس کرنماز میں کھڑے فرزندان توحید پراندھا دھند گولیاں برسائیں۔ یہودی درندے کی وحشیانہ فائرنگ سے 29 نمازی حالت سجدہ میں جام شہادت نوش کرگئے جب کہ 150 شدید زخمی ہوئے۔ یہودی دہشت گرد باروکھ گولڈ چائن نے نہتے نمازیوں پر500 گولیاں برسائی تھیں۔
تاریخ انسانی کی اس بدترین بربریت کے بعد صہیونیوں نے اگلی چال یہ چلی کہ مسجد ابراہیمی کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کردیا جائے۔ یوں اس مسجد کے آدھے سے زائد حصے کو یہودیوں نے غصب کرلیا اور اسے یہودی انتہا پسندوں کی عبادت کے لیے مختص کرتے ہوئے اس میں فلسطینیوں کے داخلے پرپابندی عائد کردی۔
مسجد ابراہیمی کی تاریخ
فلسطینی مورخین کے مطابق تاریخی مصادر ومآخذ سے پتا چلتاہے کہ الخلیل شہر اور مسجد ابراہیمی کی تاریخ کا آغاز جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس شہر میں ایک سیاسی پناہ گزین کی حیثیت سے آمد کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ قرآن پاک کی سورہ ’’الانبیاء‘‘ کی آیت 71 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :’اور ہم نے اسے (ابراہیم) اور لوط کو اس سرزمین میں پناہ دی جسے ہم نے تمام جہاںوں کے لیے بابرکت بنایا تھا‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کئی سال تک یہاں ایک مہمان کی حیثیت سے مقیم رہے۔ حضرت ابراہیم چونکہ کنعانی عربوں کے مہمان تھے یہی وجہ ہے وہ انہیں کے پاس رہے۔ ان کی اس شہرمیں آمد نے الخلیل کوایک نئی شناخت دی اور ابراہیم خلیل اللہ کے نام سے نسبت ہونے کی بدولت یہ شہر’’مدینۃ الخلیل‘‘ قرار پایا۔
تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ الخلیل شہر میں جہاں آج مسجد ابراہیمی بنائی گئی ہے اس کے نیچے ایک غار تھی جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ سارہ کو 3800 سال قبل یہاں دفن کیا گیا۔ بعد ازاں اسی غار میں حضرت ابراہیم خود، سیدنا اسحق اوران کی بیوی اور سیدنا یعقوب علیہ السلام اور ان کی بیوی بھی وہیں آسودہ خاک ہیں۔
مسجد ابراہیمی کے پہلو میں کئی جلیل القدر انبیاء کرام آسودہ خاک ہیں۔ ان میں سیدنا یعقوب علیہ السلام اور ان کی اہلیہ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اہلیہ سارہ، سیدنا یوسف علیہ السلام اور کئی دیگر بزرگ ہستیاں شامل ہیں۔
صہیونی یلغار
فلسطین میں یہودیوں کے غاصبانہ تسلط کے قیام کے بعد مسجد ابراہیمی مسجد انتہا پسند صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں کے نشانے پرہے۔ مسجد ابراہیمی کے ڈائریکٹر الحاج منذر رفیق ابو الفیلات کا کہنا ہے کہ سنہ 1967ء کے بعد مسجد ابراہیمی اور اس میں نماز کے لیے آنے والے فلسطینی بار ہا صہیونیوں کے Â حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
سنہ 1970ء میں شدت پسند یہودی موشے ڈایان کے مسجد میں داخلے کے بعد اس کے نیچے غار کو بند کردیا گیا۔ سنہ 1976ء میں یہودیوں شرپسندوں نے مسجد میں گھس کر قرآن کریم کے کئی نسخے نذرآتش کیے جس کے بعد فلسطین Â سمیت پوری اسلامی دنیا میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور کئی روز تک اسرائیل اور یہودیوں کی سازشوں کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے۔
سنہ 1994ء مسجد ابراہیمی کے حوالے سے نہایت المناک سال ہے کیونکہ اسی برس باروکھ گولڈچائن نامی ایک یہودی دہشت گرد نے مسجد میں نماز فجر کی ادائیگی میں مصروف نمازیوں کوگولیوں سے بھون ڈالا جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید اور دسیوں زخمی ہوئے تھے۔
اس سے قبل صہیونی حکام نے سنہ 1987ء میں مسجد کے تمام داخلی اور خارجی دروازوں پر الیکٹرانک آلات، کیمرے اور جاسوسی کے دیگر آلات نصب کرکے اس پرقبضہ مضبوط کرنے کی سازش کی تھی۔
مسجد کی تقسیم
مسجد ابراہیمی میں نمازیوں کے سفاکانہ قتل عام کے بعد صہیونی حکومت نے اس کی تحقیقات کے لیے ’شمغار کمیٹی‘ کے نام سے ایک کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے قاتل یہودی کے خلاف کارروائی کے بجائے مسجد ابراہیمی کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ فلسطینی مسلمانوں پر زبردستی مسلط کیا گیا۔ شمغار کمیشن نے مسجد کا 56 فی صد حصہ یہودیوں کو اور 44 فی صد فلسطینیوں کو دیا تاکہ مسجد پر یہودیوں کی بالا دستی قائم رکھی جاسکے۔ کمیشن کے فیصلے کے تحت مسجد کے یعقوبیہ، الیوسفیہ، العنبر، سدنہ ہال اور لائبریری یہودیوں کو دے دیئے گئے اور صرف الاسحاقیہ کا مقام فلسطینیوں کو دیا گیا۔
اس فیصلے کے بعد فلسطینی شہری صبح تین بجے سے رات نو بجے تک اپنے حصے کی مسجد میں عبادت کرسکتے ہیں۔ تاہم یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر پوری مسجد یہودیوں کے قبضے میں ہوتی ہے۔
اذان پرقدغنیں
ابو الفیلات کا کہنا ہے کہ جب سے اسرائیل نے مسجد ابراہیمی پرقبضہ کیا ہے اس کے بعد سے آج تک اس مسجد میں مسلمانوں کو نماز مغرب کی اذان کی اجازت نہیں دی گئی۔ عید کے ایام میں اگرچہ یہ مسجد مسلمانوں کے لیے کھولی جاتی ہے مگراذان کی پابندی برقرار رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ میں مسجد میں 155 بار اذان ہونی چاہیے مگر اسرائیلی انتظامیہ کی ناروا پابندیوں کے باعث 50 سے 70 بار ہی اذان دی جاسکتی ہے۔ باقی نمازوں کے لیے اذانوں کی اجازت نہیں ہوتی۔ جب بھی مسجد میں اذان دینا ہوتی ہے تو اسرائیلی انتظامیہ سے اس کی باضابطہ اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہودی فوجیوں کی مرضی ہوتی ہے چاہے وہ اجازت دیں چاہے نہ دیں۔
فلسطینی نمازیوں کا قاتل کون؟
باروکھ گولڈ چائن نے جب مسجد ابراہیمی میں نمازیوں کا قتل عام کیا تو اس وقت اس کی عمر 42 سال تھی۔ اس کا شمار یہودیوں کی ایک شدت پسند مذہبی جماعت ’کاخ‘ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ وہ سنہ 1980ء کو امریکا سے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں قائم ’کریات اربع‘کالونی میں آباد ہوا۔
جب ایک یہودی مذہبی پیشوا’،موشے لیفنگر‘ نے اسے پوچھا کہ آیا اسے مسجد میں نمازیوں کا قتل عام کرنے پر کوئی افسوس یا شرمندگی ہےتو اس کا جواب تھا کہ مجھے مکھی یا مچھر کو مارنے پر جتنی شرمندگی ہوتی ہے، عربوں اور مسلمانوں کو قتل کرکے اتنی شرمندگی اور افسوس بھی نہیں ہوا۔
فلسطینی نمازیوں کے قتل گولڈ چائن کو یہودیوں میں ایک مقدس ہستی کا درجہ حاصل ہے۔ یہودیوں نےاس مجرم کا مزار بنا رکھا ہے اور اس کی سیکیورٹی پر یہودی فوجیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔