اسرائیلی جیلوں میں ایسے ہی عقوبت خانے ہیں جہاں زندگی کی ادنیٰ درجے کی کوئی سہولت تو درکنا مسلسل اذیت کا موجب صرف صہیونی ریاست کے عقوبت خانوں ہی میں ہوسکتے ہیں۔ اسرائیلی زندانوں کی بیشتر کال کوٹھڑیاں ایک ہی جیسا منظر پیش کرتی ہیں۔ مذکورہ عبارت سے قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ فلسطینی اسیران کو صہیونی زندانوں میں کس طرح دن، ہفتے، مہینے ، سال حتیٰ کہ پوری پوری زندگی گذارنا پڑ رہی ہے۔
رپورٹ میں Â صہیونی ریاست کے Â ننگ آدمیت زندانوں میں قیدیوں کو درپیش لرزہ خیز مسائل اور مصائب پر روشنی ڈالی ہے۔
اسیران کی آراء پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حراست میں لیے جانے کے بعد فلسطینیوں کو جس بے رحمی اور سفاکیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
تفتیش کے مراحل سےقبل، دوران اور اس کے بعد بھی فلسطینیوں کے لیے وہی قبرنما گڑھے ہوتے ہیں جہاں انہیں شب ورزو گذارنے پڑتے ہیں۔ عرف عام میں انہیں’انفرادی عقوبت خانے‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
کیڑے اور مکھیاں اسیروں کے تنہائی کے ساتھی
اسرائیلی زندانوں میں قید رہنے والے سابق اسیر محمود عوابدہ نے بتایا کہ اس نے ’بتاح تکفا‘ تفتیشی مرکز میں 50 دن مسلسل قید تنہائی میں گذارے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ایک ایسے تنگ وتاریک کمرے میں قید رہا جہاں مجھے باہر کی دنیا کی کوئی خبر تک نہ تھی۔ تفتیش کاروں اور جیلروں کے سوا میرے پاس کوئی نہ آتا۔
ایک دفعہ میں نماز ادا کررہا تھا کہ ایک جیلر نے میرے پاس ایک ناشپاتی کا دانا چھوڑا۔ نماز سے فراغت کے بعد میں نے ناشپاتی اٹھایا تو اس کا ایک حصہ گلا سڑا تھا جس میں سے ایک کیڑا باہر نکلا۔ میں نے اپنی تنہائی کا غلم غلط کرنے کے لیے اس کیڑے کے ساتھ دل بہلانے کی کوشش کی۔ کیڑے ناشپاتی کے دانے سے باہر آتا اور میں اسے دوبارہ اندر بھیج دیتا۔
محمود نے بتایا کہ وہ کئی روز تک ’مجد‘ جیل کی ایک کال کوٹھڑی میں قید تنہائی کا شکار رہے، وہاں سے انہیں ’بتاح تکفا‘ حراستی مرکز منتقل کردیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ قید تنہائی Â صہیونی حراست گاہوں میں اذیت کا سب سے خوفناک مرحلہ ہوتا ہے۔ صہیونی تفتیش کار میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر تفتیش کرتے۔ مجھے کہتے کہ اگر میں اعتراف جرم کرلوں تو اور کوٹھڑی سے نکل سکتا ہوں ورنہ میری زندگی اسی عذاب میں رہے گی اور اس کوٹھڑی سے رہائی کی کوئی سبیل نہیں بنے گی۔
مکھیوں سے دل بہلائی
غرب اردن کے حوارہ قصبے سے تعلق رکھنے والے سابق اسیر وجیہ برکات نے بتایا کہ اسے ’الجلمہ‘ حراستی مرکز میں قید تنہائی میں ڈالا گیا۔ وقت گذارنے کے لیے میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ کسی طرف سے بھولی بھٹکی مکھی اس کی کوٹھڑی میں Â داخل ہوئی۔ میں نے مکھی کو خوش آمدید کہا اور تنہائی کے گھر میں اس کی نقل وحرکت سے اپنی تنہائی کا غم غلط کرتا رہا۔ جب تک وہ مکھی اس کی کوٹھڑی میں رہی تب تک وہ اسی کو دیکھتا اور اس کی قلہ بازیوں کا مشاہدہ کرتا۔ دو ماہ تک اسے مسلسل قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اس دوران اس کے پاس صرف ایک مکھی آئی جو کچھ دیر کے لیے اس کی تنہائی کی ساتھی بنی۔
وجیہ نے برکات نے بتایا کہ قید تنہائی کے دوران اس کے کمرے میں باہر سے روشنی اور ہوا کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ وہ صرف اندازے سے نمازوں کے اوقات کا تعین کرتا اور نماز اداکرتا۔ عقوبت خانے کے اندر اذان کی آواز تک نہیں پہنچ پاتی تھی۔
برکات نے کہا کہ اسے قید تنہائی میں ڈالنے کا اسرائیلی مقصد اس کے نفسیاتی اعصاب پرحملہ کرنا تھا مگر اس نے دو ماہ کا قید تنہائی کا عرصہ پوری ثابت قدمی اور عزم استقلال کے ساتھ گذارا۔ کبھی ایک بار بھی میں نے صہیونی جیلروں پر یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں کسی جرم میں یہاں لایا گیا ہوں اور مجھے اپنے کیے پر شرمندگی ہے۔ یہی سوچ میرے عزم کو اور بلند کردیتی اور میرے اندر ایک نیا حوصلہ اور ولولہ بیدار ہوتا جومجھے قید خانے کی تنہائی میں میرا ساتھی بنتا۔
کھانے کے وقت چوہے بھی ساتھ ہوتے
سابق اسیر تامر صوالحہ نے بتایا کہ اسے جنوبی نابلس میں حوارہ نامی ایک حراستی مرکز میں قید تنہائی میں ڈالا گیا تھا۔ اس کے کھانے کے وقت اکثر چوہے اس کے آس پاس آتے۔ وہ اپنی خوراک میں سے ان کے سامنے بھی روٹی کے ٹکڑے ڈالتا۔ ایک بار دو چوہے اس کی کوٹھڑی میں داخل ہوئے۔ وہ کمرے میں روٹی کے ٹکڑے تلاش کرتے۔ بعض اوقات وہ کھانے کے بچے کھچے ٹکڑے قید خانے کے پنجرے سے باہر ڈال دیتا جہاں سے چوہےآکر اٹھاتے۔ اس طرح قید تنہائی کے دوران چوہوں کے سامنے کھانا ڈالنا اس کا مشغلہ بن گیا اور اس کی کوٹھڑی چوہوں کے لیے خوراک حاصل کرنے کا مرکزتھا۔