فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے فلسطینی حقوق نسواں کی سرگرم کارکن ناہد ابو طعیمہ نے کہا کہ ” یقینا حقوق اور آزادی جُزو لاینفک ہیں۔ یہ فیصلہ مذہبی دباؤ کے تحت اسرائیل میں پالیسیوں کے چُناؤ اور آزادی کی حد مقرر کرنے کا واضح ثبوت ہے۔ یہ دباؤ اسرائیل میں قانون سازی پر چھایا رہتا ہے۔ یہ فیصلہ شدت پسندی اور انسانی حقوق کی پامالی پر قائم یہودی ریاست کے طرزِ فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ تل ابیب کو جب بھی موقع ملتا ہے تو وہ شدت پسندی کی جانب ہی سرائیت کرتا ہے”۔
یاد رہے کہ منگل کو جاری فیصلے سے قبل گزشتہ دسمبر میں خواتین کے ایک گروپ کو پارلیمنٹ کی عمارت میں اس لیے داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا کہ انہوں نے اسکرٹ اور مختصر لباس پہنے ہوئے تھے۔ اس پر پارلیمنٹ کے ملازمین کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔
دوسری جانب خواتین کے حقوق کی کارکن سریدہ عبد حسین صباح کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے سے بہت مسرور ہیں اس لیے کہ یہ شدت پسندی اور سخت گیری کے اُس اشاریے کا انکشاف کرتا ہے جس کی اسرائیل میں سیاسی فیصلوں پر حکم رانی ہے۔
ضابطہ لباس سے متعلق قانون
اسرائیلی پارلیمنٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ضابطہ لباس سے متعلق قانون کو برقرار رکھنے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قانون کے نفاذ کا طریقہ کار تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت پارلیمنٹ کی عمارت میں داخلے سے روکے جانے سے قبل ضروری ہدایات اور انتباہات جاری کیے جائیں گے۔
عبرانی زبان کے اخبار "ہآریٹز” کے مطابق تیسرے انتباہ سے قبل پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے سے نہیں روکا جائے گا۔
فیصلے میں باور کرایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو مہذّب اور باوقار لباس پہن کر آنا چاہیے اور ایسا کوئی لباس نہیں پہنا جانا چاہیے جس سے پارلیمنٹ کے عدم احترام کا اظہار ہو۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسی قمیضوں کو پہننا بھی ممنوع ہو گا جن پر سیاسی نعرے تحریر ہوں گے۔