ڈونالڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد صیہونی حکومت کی گستاخیاں دو چندان ہوچکی ہیں اور ہر روز فلسطینی کی زمینوں پر نئی یہودی کالونیوں کی تعمیر کا اعلان ہورہا ہے۔ واضح رہے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کرکے صیہونی حکومت کی نئی یہودی کالونیوں کی تعمیر کے کام کے روکے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ دراصل صیہونی حکومت کے حق میں امریکہ کی ہمہ گیر حمایت اس بات کا سبب بنی ہے کہ صیہونی حکومت مکمل طرح سے تحفظ کا احساس کرتے ہوئے اپنی توسیع پسندانہ پالیسویں کو آگے بڑھائے۔ فلسطینی علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کے عمل میں تیزی آنے کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
صیہونی حکومت ایک غیر قانونی حکومت ہے جس کے پاس کوئی زمیں نہیں ہے اس نے ارض فلسطین کو غصب کیا ہے، اسی طرح اس کے پاس کوئی آبادی بھی نہیں تھی اس وجہ سے اس نے ساری دنیا کے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین آنے کی ترغیب دلائی ہے۔ اس طرح اس غاصب حکومت نے اپنی موجودگی کا اعلان کیا ہے۔ غیر قانونی صیہونی حکومت عالمی برادری کے کمزور موقف کے زیر سایہ بڑی آسودگی سے اپنی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی بناء پر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ صیہونی حکومت نے سات دہائیوں کے بعد بھی ارض فلسطین پر قبضے اور مزید زمینوں کو ہڑپنے کی پالیسی جاری رکھی ہے تا کہ اپنی متزلزل پوزیشن کو بزعم خویش استحکام دے سکے۔
اس درمیان اقوام متحدہ نے صیہونی حکومت کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے بجائے غفلت برتی ہے بالخصوص عالمی انسانی حقوق کے منشور نے بھی بحران فلسطین کے تعلق سے کوئی آواز نہیں اٹھائی ہے جس کے نتیجے میں صیہونی حکومت اپنی توسیع پسندی میں مزید گستاخ ہوچکی ہے۔
اقوام متحدہ کا منشور اور عالمی حقوق کے بارے میں دیگر کنونشن اور اسکے علاوہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں صیہونی حکومت کو ہر طرح کے دخل و تصرف سے منع کیا گیا ہے۔ صیہونی حکومت مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں تیزی سے یہودی کالونیاں بناکر سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ناکام بنانا چاہتی ہے، یاد رہے ان قرارادادوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کے عمل کے جاری رہنے کی مذمت کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر دو سو بیالیس اور تین سو اڑتیس کے مطابق غرب اردن اور بیت المقدس فلسطین کے ایسے علاقے ہیں جن پر صیہونی حکومت نے قبضہ کررکھا ہے،اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اسے غیر مشروط طورپر ان علاقوں سے نکل جانا چاہیے۔ ادھر صیہونی حکام نے ایک طرف یہودی کالونیوں کی تعمیر کو اولین ترجیح میں شامل کیا ہے، سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظر انداز کردیا ہے اور اسی پالیسی کے تحت فلسطینیوں سے تاوان وصول کرناچاہتی ہے۔ فلسطین کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کی توسیع پسندی اور تسلط پسندی کی مذمت میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے عملی طورپر فلسطینی عوام کی کوئی مدد نہیں ہوئی ہے اور صیہونی حکومت ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی حکومتوں کی حمایتوں کے تحت اقوام متحدہ کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تشدد پسند اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ دنیا والے یہ دیکھتے رہیں کہ فلسطینیوں کے حقوق بدستور پامال ہورہے ہیں۔